2012

کیا کرتی ہو سارا دن؟

تحریر: زبیر طیب

خاوند سارے دن کے کام سے تھکا ہارا گھر واپس لوٹا.تو کیا دیکھتا ہے کہ اْس کے تینوں بچے گھر کے سامنے. کل رات کے پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی مٹی میں لت پت کھیل رہے ہیں۔گھر کے پچھواڑے میں رکھا کوڑا دان بھرا ہوا اور مکھیوں کی آماجگاہ ہوا ہے۔گھر کے صدر دروازے کے دونوں پٹ تو کھلے ہوئے تھے ہی،مگر گھر کے اندر مچا ہوا اودھم اور بے ترتیبی کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی۔

مزید پڑھیے

انگریزی فوبیا

تحریر:زبیر طیب( براۓ بنات عائشہ)
انگریزی بولنے کے شوق نے ہمیں پھسٹڈی قوم بنا دیا ہے ۔کیا سیاستدان ، امرائ، طلبائ‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ باوردی اور بے وردی چھوٹے بڑے افسران ،کبھی کبھار دیہاتوں میں جانے والے شہری اور شہروں میں نوکری کرنے والے دیہاتی، ماڈرن بننے اور نظر آنے والی خواتین‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ نظر آنے کے خواہش مند بی اے فیل اورمیٹرک پاس خواتین و حضرات دوران گفتگو انگریزی کے الفاظ یا ٹوٹے پھوٹے جملے استعمال کر کے دوسروں پر دھاک بٹھانے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے

مبارک بھی. شکریہ بھی

تحریر:زبیر طیب
غزہ میں جشن اور خوشی کا سماں تھا۔غزہ کی پٹی پر جوق در جوق لوگ پہنچ رہے تھے۔انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر یہاں موجزن تھا۔مسرت اور خوشی سے انکے چہرے دمک رہے تھے۔ہر شخص ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا تھا۔آج بہت عرصے بعد فلسطینیوں کے غمزدہ چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔کچھ دیر بعد ایک عظیم الشان فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھے۔

مزید پڑھیے

’’ایک پھول سی بچی‘‘

تحریر: زبیر طیب
بہت عرصہ ہو گیا، اسلام آباد کے داخلی راستوں کی اکثر رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور وہ خاردار تاریں بھی اب نظروں سے نہیں الجھتی جو سن ۷۰۰۲ئ جولائی میں جا بجا بچھائی گئیں تھیں۔ یہ سال دردناک غموں اور دکھوں سے بھرا سال تھا۔اسلام آباد کی کوئی سڑک ایسی نہیں ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دل غمگین سا ہو جائے اور آنکھیں اشک بار ہو جائیں. ہاں مگر ایک جگہ، ایک سڑک ایسی ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دل بھاری سا ہوجاتا ہے اور جسم غم و غصہ کے مارے ہچکولے کھانے لگتا ہے۔

مزید پڑھیے

بھول

زبیر طیب( مضمون براۓ المرابطون)
’’ہم امریکن ہیں اور دنیا کی’’ اعلی تہذیب یافتہ ‘‘قوم ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں ’’بدمعاشی ‘‘نظر آئے اس کو ختم کردیا جائے، ہم امریکن کے ہاں دنیا میں سب سے بڑی’’ بدمعاشی ‘‘اپنا حق مانگنا اور آزاد رہنا ہے۔ اس حق نہ مانگنے اورآزادی کو بھول جانے کا نام شرافت ہے۔ اور جو شرافت سے رہے ہم اسے امن پسند اور اعلی تہذیب یافتہ قوم کی سند دیتے ہیں ‘‘

مزید پڑھیے

تصوف اور جہاد کا حسین امتزاج

زبیر طیب ﴿مضمون برائے المرابطون﴾
روحانی ترقی اور کمال باطنی کا آخری لازمی نتیجہ شوق شہادت ہے۔﴿سیرت سید احمد شہید﴾(رح)
÷یہ بات یقینی ہے کہ کوئی روحانی ترقی کے کتنے ہی منازل کیوں نہ طے کر لے،اخلاص و للہیت میں جس قدر کیوں نہ ڈوب جائے،روحانی و قلبی قوت کی بلندیوں کو چھونے لگے،ریاضت و عبادت میں کتنا ہی کمال کیوں نہ حاصل کر لے،صفائی و باطن اور تہذیب نفس کے لئے لیل و نہار یکساں کر دے،لیکن تصوف کے اس درجے کو پہنچ کر بھی اسے اگر مزید روحانی ترقی اور کمال باطنی کے اوج ثریا کو چھونا ہے

مزید پڑھیے

’’ ظالم ‘‘

تازہ نشتر قلم....زبیر طیب

پاکستان میں یہ کیسے ہوگیا کہ نہ قانون رہا نہ قانون کی بالا دستی ، یہ کیسے ہوگیا کہ کرپٹ ترین حکمران ہم پر مسلط ہوگئے ، یہ کیسے ہوگیا کہ کوئی کسی کو گالی نکالتا ہے تو اسے دکھ نہیں ہوتا ؟ کوئی کسی کو جان سے مار دیتا ہے تو دندنا تا پھر تا ہے ؟ جو جتنا بڑا مجرم وہ اتنا بڑا آدمی. آرام و سکون کیسے اور کیوں چھن گیا ؟بے حسی نے انسانیت کو کیسے زچ کر دیا؟ منافقت اوڑھنا بچھونا کیسے بن گئی ؟کرپشن کا راج کیسے چاروں طرف اندھیرے کی طرح پھیل گیا؟ یہ سب کیوں ہوگیا یہ سب کیسے ہوگیا. ؟؟آئیے ساتھ مل کر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

مزید پڑھیے

کس ماں کا دودھ پیا ہے؟

تحریر : حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو غلبہ عطاءفرمائے…. ظالم یہودیوں کی نظر (نعوذباللہ)…. مدینہ منورہ پر ہے…. یہودیوں کے طیارے بمباری کر رہے ہیں…. ان کے ٹینک آگ اُگل رہے ہیں…. اور فلسطین ولبنان کے مظلوم مسلمان…. بمباری سے گرنے والی عمارتوں کے نیچے بے بسی کی آخری سانس لے رہے ہیں…. یہودی، انبیاءعلیہم السلام کے قاتل…. یہودی سونے کے بچھڑے کے پجاری…. یہودی بندروں اور خنزیروں کی اولاد ….

مزید پڑھیے


صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟؟

تازہ نشتر قلم : زبیر طیب
سخت گرمی کا دن تھا۔ سورج جیسے آگ برسا رہا تھا۔ میں شہر کے ایک بس سٹینڈ پر کھڑا گاؤں جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ دھوپ اتنی شدید تھی کہ جسم کو جھلسا رہی تھی اور پسینہ بہتا ہی چلا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے اردگرد نگاہ دوڑائی اور لوگوں کو دیکھنے لگا۔ہر کوئی اپنے کام میں مگن تھا۔

مزید پڑھیے

قصہ کہانی کالم

تحریر: زبیر طیب
خبر پڑھتے ہی ایک قصہ یاد آ گیا۔خدا جانے کیوں ؟ مگر خیر پہلے قصہ سن لیجیے، پھر خبر۔قصہ پہلے کا پڑھا ہوا ہو،تو پھر بھی پڑھ لیجیے۔کیوں کہ خبر بھی کون سی ایسی ہے جو پہلے کی پڑھی ہوئی نہ ہو۔
ایک سردار جی ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔سفر بڑے مزے سے کٹ رہا تھا۔یکایک گاڑی ایک اسٹیشن پر جھٹکے سے رک گئی۔

مزید پڑھیے

تم کب آؤ گے.؟؟

تحریر: زبیر طیب
لاکھوں کروڑوں لوگ ایک آس کی پیاس لیے بے چینی سے تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے ہوائی اڈے سے دارالسلطنت تک ایک لمبی قطار بنا رکھی ہے کہ تمہارا فقیدالمثال استقبال کرسکیں۔ نوجوان سب سے آگے اور مستعد ہیں، بزرگ بھی تمہاری راہ تک رہے ہیں اور بچوں کا بھی ایک جم غفیر ہے۔

مزید پڑھیے

’’احتسابی وائرس‘‘

تحریر: زبیر طیب
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب طاقت کے بے محابا استعمال اور برہنہ بربریت ہی کو دستور زندگی بنا لیا جائے اور انسانی حقوق کی گن گانے والی مہذب دنیا انہی کو اصول و ضوابط قرار دے ڈالے ،تو پھر درندگی کو لگام دینا ممکن نہیں رہتا۔مہذب جمہوریت پسند دنیا کا انصاف ،معرکے پر معرکے سر کرتا،انسانی بستیوں اور راہ گیروں کے قافلوں،مدرسوں،خوراک کے گوداموں،نمازیوں سے بھری مساجد،قلعہ جنگی کے تہہ خانوں،تورا بورا کے غاروں،مزار شریف کے بازاروں سے ہوتا ہوا اب پاکستان کے فوجی ٹھکانوں تک درندگی کی مثالیں رقم کرتا آن پہنچا ہے۔

مزید پڑھیے

بکرے کی کہانی

تحریر : زبیر طیب
میں ایک صاف ستھرے گائوں میں رہتا تھا۔ میرا مالک بہت اچھا انسان تھا۔ وہ مجھ پر زیادہ سختی نہیں کرتا تھا۔ اسے مجھ سے بہت پیار تھا۔ میں چھوٹا سا تھا جب میرے مالک نے میری دیکھ بھال شروع کی، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا، مجھے وقت پر کھانا دیتا اور کبھی بلاوجہ مجھے نہیں ڈانتا تھا۔

مزید پڑھیے

مان جائیے ورنہ

تحریر: زبیر طیب...خاص برائے’’ پکار‘‘ ﴿ جامعہ عثمانیہ لاہور﴾
سڑک پر گاڑی کو غلط لائن پر چلا کر دیکھیں۔ جہاز کو ہوا میں کسی فضائی قانون سے آزاد اڑائیں، قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ حادثہ ہی ہو گا۔ دفتر کے اوقات میں سو جائیں یا پھر سونے کے اوقات میں دفتر پہنچ جائیں، دونوں صورتوں میں نقصان ہی ہو گا۔ سب اس بات کو سمجھتے ھیں اور اسی لیے ہر شعبے کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن فطرت کے قوانین تمام دوسرے قانونوں سے اٹل ہیں۔

مزید پڑھیے

عوام سے خواص میں داخل ہونا آسان نہیں

تحریر: ام زبیر طیب
ہمارے گھر کے اندر صحن کے ساتھ ملحقہ جگہ پر کاٹھ کباڑ بہت زیادہ مقدار میں موجود تھا ۔جو گھر کی زینت پر کافی کاری ضرب لگاتا تھا۔ہم نے کئی بار سوچا کہ اس کاٹھ کباڑ کو کہیں ٹھکانے لگا کر یہاں کوئی فائدہ مند چیز بنائی جائے تاکہ فائدہ بھی ہو اور اس گندگی سے جان بھی چھوٹے۔

مزید پڑھیے

درد سے بھری ایک چھوٹی سی دنیا


 تحریر : زبیر طیب
چند روز پہلے مجھے اپنے ایک عزیز کی تیمارداری کے لئے ہسپتال کے اندر کی دنیا کو تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہسپتال گیا تو محسوس ہوا کہ جیسے ’’ سارا شہردرد میں ہے ‘‘
بہاولپور کا ’’بی وی ایچ ‘‘ ہسپتال بھی ’’درد کا ایک شہر‘‘ ہے۔

مزید پڑھیے

’’میں بھیک نہیں لیتا‘‘

تحریر : زبیر طیب
 
وہ ایک کہر بھری شام تھی۔جب میں لاہور شہر کی ایک مشہور شاہراہ پر ٹریفک کے ہجوم میں پھنس کر رہ گیا تھا۔گاڑیوں کا ایک میلوں لمبا اژدہا ہمارے آگے کھڑا تھا۔اور اسکے حرکت کرنے کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔

مزید پڑھیے

’’ضرورت‘‘

تحریر: زبیر طیب
اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو جدا جدا فطرت سے نوازا ہے۔کسی کا حافظہ غضب کا ہے تو کسی کے پاس برداشت کی اعلٰی قوت۔کسی کو ظلم سہنے کی قوت دی ہے تو کوئی جبر کے خلاف طاقت رکھتاہے۔کسی کے پاس قلم ہے تو کسی کی زبان کو سحر بیانی کا ملکہ عطائ کیاگیا ہے۔کوئی رہبر ہے تو کوئی باشعور عوامی فرد۔کوئی امام ہے اور کوئی مقتدی۔کوئی سائنسدان ہے تو کوئی عالم دین

مزید پڑھیے

واویلا

تحریر : زبیر طیب
۹ اپریل کو دوسری ’’ قومی انرجی کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا، امپورٹڈ’’ اے سیوں‘‘ کی ٹھنڈی ہواؤں کے بیچ وبیچ، منرل واٹر کی بوتلیں پی پی کر اس کانفرنس میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ خلوص دل اور نیک نیتی سے بجلی کی بچت کو یقینی بنائیں تاکہ سب کو زیادہ سے زیادہ بجلی ملے۔

مزید پڑھیے

بل فیسٹیول

تحریر : زبیر طیب
وہ بہت ہی خطرناک اور عجیب و غریب میلہ تصور کیا جاتا ہے، یہ میلہ ہر سال ’’بل فیسٹیول‘‘ کے نام سے اٹلی، روم اور فرانس میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں لوگ اپنے شہروں میں بپھرے ہوئے، خطرناک اور صحت مند ’’سانڈوں‘‘ کو سڑکوں پر کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر لوگ ایک سرخ کپڑا اس سانڈ کے سامنے لہراتے ہیں۔

مزید پڑھیے

تعارف حضرت امیر المجاہدین

تحریر : طلحہ السیف
الامام المجاہد فی سبیل اللہ، الداعیۃ الکبریٰ، امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے بلاد میں بلکہ پورے عالَم میں دعوت جہاد کو عام کرنے اور میدان جہاد میں مشرکین و اہل صلیب کو رسوا کرنے کے لئے منتخب فرمایا اور اس میدان میں سبقت عطا فرمائی ہے۔

مزید پڑھیے

آواز

تحریر : زبیر طیب
تمہیں اللہ، رسو ل کا واسطہ میرے بیٹے کو مت مارنا، تمہیں جو چاہیے وہ لے لو، میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اسے کچھ مت کہنا.!!

ممتا کے درد سے چور ایک ماں اغوا کا روں سے اپنے بیٹے کے لیے زندگی کی بھیک مانگتی، رندھی ہوئی آواز میں التجائیں اورفریادیں کرتی، اپنے بیٹے کی جان بخشی کے لیے اپنی ساری متاع دینے کوتیار ہے، رو رو کر وہ انھیں کہتی ہے :’’میرے بیٹے کو چھوڑ دو . !! ‘‘

مزید پڑھیے

کچھ یادیں اندلس کی

تحریر : زبیر طیب
اندلس میں اسلام کا تاریخی دور تقریبا ً آٹھ سو سال پر پھیلا ہوا ہے۔ان آٹھ صدیوں میں مسلمانوں کو زندگی اور تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔انہوں نے ایک اجنبی سرزمین پر مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والوں،مختلف زبانیں بولنے والوں،اور مختلف مزاہب کے ماننے والوں کو ایک ریاست کے سائے میں متحد و منظم کیا۔

مزید پڑھیے

مشکل میں کون؟

تحریر : زبیر طیب
خبر ہے کہ افغانستان میں قیدیوں پر امریکی افواج کے نئے مظالم کا انکشاف۔ قیدیوں کو سخت سردی میں رکھنے،ذلت آمیز تلاشی لینے اور روشنی سے محرو م رکھ کر نیٹو سپلائی کی بندش کا بدلہ ان مظلوم قیدیوں سے لیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے

کلمہ حق کی پاداش میں

’’آپ اس بارے میں کیافتوٰی دیں گے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ وہ کسی شخص کو قتل کر دے حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ جس کے قتل کا حکم امیر المومنین نے دیا ہے،مجرم ہے یا نہیں؟‘‘خلیفہ منصورکے مصاحب خاص ابو العباس طوسی نے بھرے دربار میں امام ابو حنیفہ سے سوال کیا۔آج اس نے ارادہ کیا کہ ابو حنیفہ سے کوئی ایسی بات کروائے کہ خلیفہ منصور انہیں سزا دینے کے درپے ہو جائے۔اس مقصد کی خاطر اس نے امام ابو حنیفہ کو پھانسنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیے

ایک چھوٹا سا انسان

تحریر: زبیر طیب
ہر صبح جب ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے اور بڑے لوگوں کی بستی میں گہرا سناٹا چھایا ہوا ہوتا ہے۔وہ گلابی چہرے والا ننھا منھا بچہ کندھے پر کچرے کا تھیلا لٹکائے یہاں سے گزرتا ہے اور بڑے لوگوں کے پھینکے ہوئے ’’ریپر‘‘ ’’برگرز کے خالی ڈبے ‘‘اورفاسٹ فوڈ کے ڈھیروں شاپر یہاں پر اسے روز ملتے ہیں۔وہ جب بھی یہاں آتا ہے تو اس کی نظریں اردگرد پڑے کاغذ ، ردی، پلاسٹک اور تاروں کی تلاش میں رہتی ہیں اور قدم تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔وہ اسی طرح روز ادھر ادھر دیکھتا ہوا چلتا جاتا ہے،یہاں تک کہ نگاہوں سے غائب ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھیے

آج نہیں تو کبھی نہیں

تحریر : زبیر طیب
سب کچھ اس کے سامنے ہوا تھا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔اس کے سامنے قرآن مجید کو جلا دیا گیا تھا اور وہ بندوق ہاتھ میں پکڑے ایک نمک خوار کی طرح بس دیکھتا ہی رہ گیا۔اس کے ذہن میں اک طوفان برپا تھا۔اسکے دل کی حالت قابل رحم ہو گئی تھی۔سانس جیسے رک رک کر آ رہا تھا۔آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی اس کے رخسار کو بھگو رہی تھی۔

مزید پڑھیے

انجام سے بے خبر لوگ

تحریر : زبیر طیب
وہ کمرہ عدالت سے باہر آ رہا تھا،اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہیں تھی،اس کے حق میں لوگ نعرے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے،وہ فخر سے اپنے اردگرد نگاہ ڈالتا،پھولوں کو روندتا شاندار لینڈ کروزر پر بیٹھ کرچلا گیا،ایک اور دل دہلا دینے والا کرپشن کا باب بند ہو گیا۔

مزید پڑھیے

ایک کہانی ایک سبق

تحریر: زبیر طیب
وطن عزیز میں کرپشن کی روح فرسا کہانیاں اقتدار کے بڑے ایوانوں سے گلی کوچوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ جس کی ذمہ داری قومی وسائل کو بچانا ہے وہی لوٹ مار میں ملوث نظر آتا ہے۔مالی بے ضابطگیوں کے حیرت انگیز مناظر سامنے آتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

مزید پڑھیے

اپنے گھونسلوں میں چھپے رہنا

تحریر: زبیر طیب
ایسا بھی ہوتا ہے اکثر کہ افراد ہی نہیں اقوام بھی خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ ٹی وی اور ویڈیو گیمز کے شائق امریکی ’’افغان جنگ‘‘ کو بھی ایک ویڈیو گیم ہی کی طرح سمجھے۔ ایک ایسا کھیل جسے بڑی سی سکرین کے پار بیٹھ کر محض بٹن دبانے سے کھیلا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے

موسم، مشغلے اور اشتہار

تحریر : زبیر طیب
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے اور یہ ہر حال میں اپنی مدت پوری کرے گی۔ہر پارٹی اپنی حدود میں رہ کر انتخابی مہم چلائے۔کسی کو حکومت پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔قبل از وقت انتخابات کا نعرہ لگانے والے ابھی انتظار کریں۔

مزید پڑھیے

عورت کے لیے دنیا کا سب سے حسین لمحہ


تحریر: مولانا محمد مسعود ازہر

پاک دامن اور نیک سیرت عورت کی زندگی میں. خوشیوں کی کئی بہاریں آتی ہیں. کبھی اس کی گود خوبصورت بیٹے یا معصوم بیٹی سے آباد ہوتی ہے. کبھی اسے اپنے خاوند کی ترقی اور دینداری سے خوشی ملتی ہے. کبھی اپنی اولاد کو جوان دیکھ کر وہ پھولے نہیں سماتی. کبھی اپنے بچوں کی شادیاں. اس کے لئے خوشی کا پیغام بن کر آتی ہیں.

مزید پڑھیے

نسوانی حقوق براستہ واک

تحریر: بنت صابر

اتوار کا دن تھا اوردن کے 10 بجے تھے ۔ میرے بیٹے کو اچانک بہت تیز بخار نے آ گھیرا تھا۔طبعیت کے بہت زیادہ خراب ہو جانے پر ہم گاڑی میں اسے لے کر ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ڈاکٹروں نے آرام اور ادویات تجویز کیں اور تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد میں اور میرے شوہر واپس گھر کی طرف آ رہے تھے کہ اچانک ’’مال روڈ ‘‘ پر بہت زیادہ رش دیکھا، پہلے تو یہ خیال ہوا کہ خدانخواستہ کوئی بڑا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے مگر جب ہماری گاڑی قریب پہنچی تو پتہ چلا کہ حقوق نسواں کی ایک معروف این جی او نے آج یہاں ’’خواتین واک‘‘ کا اہتمام کیا ہے

مزید پڑھیے

پانچ جھوٹ

کہانی: زبیر طیب
کسی زمانے میں ایک گائوں کے اندر چار دوست رہتے تھے۔ وہ چاروں بے حد نکمّے اور کام چور تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ہمیں کوئی کام بھی نہ کرنا پڑے اور ہمیں کھانے، پینے اور رہنے کی ہر چیز بھی میسر آتی رہے۔ ان چاروں میں جو سب سے بڑا تھا وہ بہت چالاک اور ذہین کا تھا۔

مزید پڑھیے

پچھتاوا

کہانی : زبیر طیب
بیٹا! کہاں ہو تم؟ میں مر رہی ہوں۔ اپنی ماں کو آخری بار نہیں دیکھو گے؟ یہ کہتے ہی فریدہ بیگم کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر نیچے زمین پر آگرتا ہے۔ ہسپتال کے ایک کمرے میں موجود فرمان کی امی زندگی کی آخری سانسیں لے رہیں تھیں۔ کینسر کے مرض نے فریدہ بیگم کو پوری طرح جکڑ لیا تھا۔

مزید پڑھیے

خون کی بوندیں

تحریر : زبیر طیب
یہ کہانی ہے شمالی وزیرستان کے علاقے درئی نشتر کی ایک تنگ و تاریک بستی کے ایک نیم پختہ گھر کی. رات کا وقت تھا۔ہر طرف خاموشی تھی۔ ایک گہرے سکوت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ اچانک ایک ڈرون طیارہ فضا میں چنگھاڑتا ہوا، گہرے سکوت کو چیرتا ہوا ایک گھر کو تہس نہس کر گیا۔ اس گھر کے مکین شاید ٹھیک سے سمجھ ہی نہ پائے ہوں گے کہ ان کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے؟

مزید پڑھیے

جب امید کے دیے بجھ گئے

 تحریر: زبیر طیب
دوسروں کے لئے وہ موسم بہار کی ایک خوبصورت شام تھی۔ لیکن میرے لئے بہت ہی خوفناک شام تھی، جس کے کالے گھنے بڑھتے ہوئے سایوں کو آج بھی سوچتا ہوں تو جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔ سب ہنسی خوشی اس پارک میں کھیل رہے تھے اور میں تنہا کھڑا رو رہا تھا۔اپنے والدین سے بچھڑنے کا غم مجھے بے ساختہ رونے پر مجبور کر رہا تھا۔

مزید پڑھیے

میں اکثر سوچتا ہوں

          تحریر: زبیر طیب
وہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی بسر کر رہا تھا۔سوکھی روٹی دن بھر کی مشقت کے بعد اسے اور اسکے گھر والوں کو نصیب ہوتی تھی۔وہ اپنے گھر میں صرف بقدر ضرورت بجلی کا محدود استعمال کرتا تھا۔

مزید پڑھیے

<<< پچھلا صفحہ