قصہ کہانی کالم

تحریر: زبیر طیب
خبر پڑھتے ہی ایک قصہ یاد آ گیا۔خدا جانے کیوں ؟ مگر خیر پہلے قصہ سن لیجیے، پھر خبر۔قصہ پہلے کا پڑھا ہوا ہو،تو پھر بھی پڑھ لیجیے۔کیوں کہ خبر بھی کون سی ایسی ہے جو پہلے کی پڑھی ہوئی نہ ہو۔
ایک سردار جی ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔سفر بڑے مزے سے کٹ رہا تھا۔یکایک گاڑی ایک اسٹیشن پر جھٹکے سے رک گئی۔
سردار جی نے گاڑی سے گردن نکال کر اسٹیشن کا نام پڑھا ۔ایک جوش اور ولولے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ۔کود کر پلیٹ فارم پر اترے اور پاس کھڑے گارڈ سے پوچھا:
یہاں گاڑی کتنی دیر کے لئے ٹھہرے گی؟
جواب ملا:
یہاں گاڑی رکتی تو نہیں ہے لیکن کسی خرابی کی وجہ سے گاڑی رک گئی ہے اور وہ خرابی ایسی ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے سے پہلے یہاں سے روانہ ہونا ممکن نہیں ہے۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔گاڑی کی خرابی میرے لیے خوبی بن گئی ہے ۔ یہاں مجھے ایک بہت ضروری کام کرنا تھا۔میں ’’ہنڑ ای آیا ‘‘۔سردار جی نے کہا۔
 سردار جی بھاگم بھاگ اسٹیشن سے باہر نکلے اور ایک رکشے والے کو آواز دی۔
’’فلاں جگہ چلو گے، بہت ضروری کام ہے؟‘‘
سردار جی ! وہ علاقہ تو مسلمانوں کا ہے ۔
’’ہے تے اسی کی کریے‘‘اسی وی سردار آں‘‘۔ سردار جی نے اپنی مونچھوں کو تاؤدیتے ہوئے بڑے بارعب انداز میں کہا۔
مجھے وہاں بہت ضروری کام ہے۔تم وہاں مجھے کتنی دیر میں پہنچا دو گے؟
گھنٹہ تو لگ جائے گا۔راستہ بہت دور ہے سردار جی۔رکشہ والا شاید جان چھڑانے کے چکروں میں تھا۔
بے شک گھنٹہ لگ جائے ۔میں تمہیں پیسے ڈبل دوں گا بلکہ’’ ٹرپل‘‘ پیسے لے لینا لیکن بس اب چل اور دیر نہ کر۔سردار جی نے آخر رکشہ والے کو منا ہی لیا۔
تین گنا کرایہ کی پیشکش سنتے ہی رکشے والا سردار جی کو بٹھا کر ہوا ہو گیا۔ان کے بتائے ہوئے محلے میں پہنچا۔سردار جی نے رکشہ گلی کے ایک سرے پر رکوایا اور گلی کے اندر جا کر ایک گھر میں گھس گئے۔
گھر میں گھستے ہی سردار جی سر کے بل باہر آ گرے۔پھر گھسے پھر باہر پھینکے گئے۔پھر کوئی شخص انہیں مارتا ہوا باہر نکال لایا۔
اب جو سردار جی بدک کر رکشہ کی طرف بھاگے تو اس شخص نے ان کو مار مار کر رکشہ کی مخالف سمت میں دوڑا دیا۔ جب وہ مخالف سمت کو دوڑے تو اس شخص نے ان کو پکڑ کر پھر اسی سمت میں دوڑا دوڑا کر مارا جس سمت سے وہ آئے تھے۔وہ نڈھال ہوئے تو اس نے سردار جی کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر چڑھ کر ان کی ٹھکائی کرنے لگا۔سردار جی پھر کسی داؤ سے اپنا آپ چھڑوا کر رکشے کی جانب بھاگے تو اس شخص نے پھر پکڑ لیا اور مار مار کر سردار جی کو ادھ موا کر دیا۔بس اب تو سردار جی کی جان نکلنے والی تھی۔تھوڑی دیر میں مارنے والا آدمی بھی مارتے مارتے ہانپنے لگا۔جب وہ سانس لینے کو رکا تو سردار جی سرپٹ بھاگے اور رکشہ میں آکر دم لیا۔دم لیتے ہی بولے:
’’اب واپس چلنے کی کرو۔‘‘
’’سردار جی کام ہو گیا‘‘رکشے والے نے پوچھا۔
’’ہاں جی ہو گیا‘‘سردار جی بولے۔
سردار جی ! اگر آپ کو یہی ’’ضروری کام‘‘ تھاتو اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے ناحق’’ تین گنے کرائے‘‘ پر اتنی دور آنے کی زحمت کی۔یہ کام تو اس سے کہیں کم خرچے پر،اس سے کہیں کم وقت میں اور اس سے کہیں زیادہ مقدار میں،میں وہیں سر انجام دے سکتا تھا۔
اب خبر پڑھیے:
امریکہ نے کہا ہے کہ’’افغانستان میں ہمارے مقاصد ‘‘حاصل ہو چکے ہیں۔ہم نے افغانستان کی جنگ کو سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔اب ہم مزید اپنے فوجیوں کی ہلاکت برداشت نہیں کر سکتے۔اور حالیہ قرآن بے حرمتی پر ہمارے معافی مانگنے کے باوجود ہمارے فوجیوں پر حملے جاری ہیں۔اب ہم انخلائ کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔۰۱ ہزار فوجی واپس آ چکے ہیں ،مزید ۳۲ ہزار فوجی اس سال موسم گرما تک واپس آ جائیں گے۔
سنا ہے افغانستان کے اندر نیٹو ممالک اور امریکہ کے حلیف اب روہانسے ہو کر امریکہ سے کہہ رہے ہیں کہ:
’’سرکار! اگر انہی مقاصد کا حصول’’ مقصود‘‘ تھا تو آپ نے ناحق ﴿تین گنا کرائے پر﴾ہماری فوج لے کر اتنی دور آنے کی زحمت کی..‘‘
٭.٭.٭
آخر میں ایک کہانی ملاحظہ فرمائیں اور بعد میں خبرسنیں :
 یہ کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جو فولاد ﴿یعنی لوہا﴾ کھاتا تھا۔ کسی انسان کے فولاد یا لوہا کھانے کا واقعہ شاید آپ لوگوں نے پہلے بھی سنا ہو لیکن جو کہانی میں سنا رہا ہوں اس میں وہ انسان بہت زیادہ لوہا کھاتا ہے اتنا لوہا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے محکمہ ریل کا ایک وزیر تھا جس کا نام’’ بلو چور‘‘ تھا۔ بلو اس کا اصل نام اور چور اس کا تخلص تھا۔ ملک کے بادشاہ نے اس کو انعام کے طور پر ریلوے کا وزیر بنا رکھا تھا۔
 وزارت کا عہدہ سنبھالتے ہی اس نے اپنا کام بڑی ایمانداری سے کرنا شروع کر دیا۔ یعنی اسے جب بھی بھوک لگتی وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے ریلوے کا لوہا کھا لیتا تھا۔ حالانکہ اس کی صحت اگر دیکھی جاتی تو کوئی یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ آدمی دن میں ایک روٹی بھی کھاتا ہو۔ وہ اتنا دبلا پتلا اور کمزور آدمی تھا۔ لیکن جب وہ فولاد کھانا شروع کرتا تو کھمبے ، تاریں اور گاڑی کی پٹریاں منٹوں میں ہڑپ کر جاتا۔اس کا صبح کا ناشتہ ہوتا تھا ! ایک گاڑی کا روسٹ کیا ہوا ڈبہ، چار میل لمبی تاریں، دو سو سے زیادہ کھمبے اور پانچ ہزار لیٹر ڈیزل کا ملک شیک اور دوپہر کو وہ آٹھ سے دس انجنوں کا بھرتا اور رات کو وہ مال گاڑی کے ڈبوں کے سوپ کے ساتھ پٹڑیوں کی سٹکس کھاتا تھا۔
ملک کا بادشاہ اس کے اس کارنامے پر انتہائی خوش تھا اور آئے دن اسے انعامات سے نوازتا رہتا تھا۔ بلو چور کھا کھا کر اتنا تھک جاتا تھا کہ جب بھی اسمبلی کا اجلاس ہوتا تھا تو اس کو سویا ہوا ہی پایا جاتا تھا۔ زیادہ کھانے اور زیادہ پینے کے بعد اکثر نیند کا غلبہ آ جاتا ہے۔
اب خبرسنیے:
خبر ہے کہ چاچڑاں سیکشن پر کئی کلومیٹر پٹڑی صرف ۸ روپے کلو کے حساب سے فروخت کر دی گئی۔مزید یہ کہ ریلوے کو رواںسال کے شروع سے اب تک ۰۴ ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے۔
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔