’’ ظالم ‘‘

تازہ نشتر قلم....زبیر طیب

پاکستان میں یہ کیسے ہوگیا کہ نہ قانون رہا نہ قانون کی بالا دستی ، یہ کیسے ہوگیا کہ کرپٹ ترین حکمران ہم پر مسلط ہوگئے ، یہ کیسے ہوگیا کہ کوئی کسی کو گالی نکالتا ہے تو اسے دکھ نہیں ہوتا ؟ کوئی کسی کو جان سے مار دیتا ہے تو دندنا تا پھر تا ہے ؟ جو جتنا بڑا مجرم وہ اتنا بڑا آدمی. آرام و سکون کیسے اور کیوں چھن گیا ؟بے حسی نے انسانیت کو کیسے زچ کر دیا؟ منافقت اوڑھنا بچھونا کیسے بن گئی ؟کرپشن کا راج کیسے چاروں طرف اندھیرے کی طرح پھیل گیا؟ یہ سب کیوں ہوگیا یہ سب کیسے ہوگیا. ؟؟آئیے ساتھ مل کر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ہمارے کرپٹ حکمران نقصان نہیں فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ کیونکہ ہم ایک لمحے سے بھی پہلے مندرجہ بالا تمام برائیوں کے ذمہ دار حکمرانوں کو ٹھہرا دیتے ہیں۔ اور خود پسی ہوئی مظلوم و محکوم قوم بن جاتے ہیں۔ غور کیجئے انفرادی طور پر غور کیجئے ، اپنے اوپر غور کیجئے ، اپنی حرکتوں اور عادتوں پر غور کیجئے۔حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی نوبت نہیں آئے گی ، ہم سب اپنے اپنے بال ہی نوچ لیں گے۔ یہی کڑوی سچائی ہے۔
ہم خود کو کبھی بدل نہیں سکے اور شاید نہ کبھی بدل سکتے ہیں کیونکہ بدلنے کی کوشش اس چیز کی، کی جاتی ہے ، جس کی پہلے تشخیص کی کوشش کی گئی ہو ، جس کو پہلے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہو ، یا جس کو سمجھ کر برا محسوس کیا ہو۔جبکہ ہمارے ہاں ایسا بالکل نہیں ہے اس لئے ہم اپنی برائیوں سمیت بہت فخر سے زندہ ہیں۔ جہاں برائیوں کو باقاعدہ اچھائیاں سمجھا جائے اور ا ن پر فخر کیا جائے تو کیا آپ سوچ سکتے ہیں کوئی ان پر ملامت کرنے یا انہیں بدلنے کا سوچے گا بھی.؟؟
ہم اکثر کہتے اور لکھتے ہیں کہ حکمران خوشامد پرستی اور اقربا پروری میں گرفتار ہیں۔ایک نظر ہم اپنے ارد گرد دوستوں کے حلقوں پر ہی دوڑا لیں۔کیا ہم خود انفرادی طور پر اس مرض میں مبتلا نہیں ہیں ، ہم صرف اپنے رشتے داروں ،اپنے دوستوں، یا اپنے علاقے،اپنی زبان کے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ؟ کیا ہم مفاد پرستی کی خاطر ایک دوسرے کی خوشامد میں حدیں عبور نہیں کرتے ؟ کیا ہم منا فقت کو مشہور ہونیکا بہت بڑا ذریعہ نہیں مانتے ؟ کیا ہم جھوٹ کے سہارے اور دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر آگے بڑھنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں. ؟؟ ملکی سطح پر تو دور کی بات ہے کیا ہم مختلف جگہوں پر ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجمو عی اور دیر پا فائدے کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیع نہیں دیتے ؟ کیا ہم عام انسانوں سے ، جن سے ہمیں کوئی دنیاوی فائدہ نہ ہو، ملنے یا بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ؟نہیں تو پھر مانیے کہ ہم میں سے اکثریت صرف اپنے لیے جیتی ہے۔صرف اپنا بھلا سوچتی ہے۔
 اسکے علاوہ کیا ہم ایک دوسرے کے سینوں پر پاؤں رکھ کر آگے نہیں بڑھتے ؟ کیا ہمارے رویے سراسر خود غرضی اور ذاتی انا کے گرد نہیں گھومتے ؟ کیا ہم ایک انسان کی حیثیت سے دوسرے انسان کی یہی حیثیت تسلیم کرتے ہیں ؟ کیا ہم ہر پل، ہر لمحہ دوسروں پر طنزکی یلغار نہیں کرتے؟ کیا ہم دوسروں کا مذاق اڑا کر ان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرتے؟کیا ہم دولت کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف نہیں ہیں ؟ اگر ان سب کا جواب ہاں ہے تو سوچیے ہمارا معاشرہ کیسے درست سمت کی طرف بڑھ سکتا ہے؟
حکمرانوں کو بھول کر ایک منٹ کے لئے ذرا سوچیے کہ کیا ہمیں موت یاد ہے ؟ کیا ہم نے موت کے بعد والی ابدی زندگی کا کچھ سامان کیا ہے؟ کیا ہم خود شریعت کے اصولوں کے امین ہیں؟ کیا ہمیں خدائی احکامات کا لحاظ ہے؟ کیا ہم دوسروں کی حق تلفی سے خود کو بچاتے ہیں؟ کیا ہم زبان کو دوسروں پر کھلا نہیں چھوڑ دیتے؟ کیا ہمیں قبر یاد ہے؟ قیامت کی سختی اور یوم حساب بھول نہیں گیا.؟ جب ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں تو ہم خود کو مورد الزام کیوں نہیں ٹھہراتے؟
ہماری طرز معاشرت دیکھیے کہ کیا ہم ایک دوسرے سے کئے ہوئے چھوٹے چھوٹے بھی وعدے نبھاتے ہیں ؟ کیا ہم کسی انسان کا دل دکھاتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب اگر ہمارے ساتھ ہو تو ؟کیا ایک محفلِ موسیقی یا فیشن شو پر کسی بیمار کی عیادت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ؟ کیا ہم ایک دوسرے کے خلاف مفادات کے لئے سازشوں میں نہیں الجھے رہتے ؟کیا ہمارے دل اور نیتیں صاف ہیں ؟ کیا ہم ایک دوسرے کی پشت پر کبھی حسد اور کبھی اپنے مفاد کے لئے چھرے نہیں گھونپتے رہتے ؟کیا ہم احسان فراموش نہیں ؟ کیا ہم وہ نہیں جو ہم پر احسان کرے اسے ہی اذیت دیتے ہیں ؟ کیا ہم ایک دوسرے کے کرب یا درد کو محسوس کرتے ہیں ؟ کیا ہم کسی کے گھر لگی ہوئی آگ کو دیکھ کر یہ نہیں سوچتے کہ کیا فرق پڑتا ہے ہمارا گھر تو محفوظ ہے ؟ کیا ہمیں صرف اپنی موت، موت اور دوسروں کی فقط ایک تماشا نہیں لگتی ؟
ان سب باتوں کو سوچیئے ، مشاہدہ کیجئے اور کسی دوسرے کے رویے سے نہیں ، اپنے آپ سے ، اپنے رویے سے ، اپنی روز مرہ کی زندگی سے خود کے بارے میں اندازہ لگائیے، ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیے اور پھر بتائیے .
اگر پاکستان کے حکمران منافق ، کرپٹ اور جھوٹے ہیں۔وعدہ کر کے مکر جانے والے ، لاشوں کے سینے پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھنے والے ، کمزور کو استعمال کرنے والے ، قوم کا نہیں ، ملک کا نہیں اپنے گھر کا ، اپنے بچوں کا ، اپنے رشتے داروں اور دوستوں کا سوچتے ہیں، اگر ان کی نیتیں صاف نہیں ہیں ، اگر وہ ایک دوسرے کے خلاف ذاتی مفاد اور وقتی فائدے کے لئے کسی بھی بیرونی طاقت کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں ، اگر ان پر اور ان کے اہلِ خانہ پر کرپشن کے الزمات ہیں ،اگر رحمان ملک یا حسین حقانی سفید جھوٹ بولتے ہیں ، اگر پارلیمنٹ میںپیسے، عہدے کے ذریعے لوگ خریدے اور بیچے جاتے ہیں ، اگر لوگوں کی بھوک ، بدحالی کا کوئی پرسان ِ حال نہیں،کسی کے مرنے یا جینے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اگر ان کے گرد بے حسی کی چادریں تنی ہوئی ہیں ، اگر پاکستان کو ایک قوم کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح پر بدنام قوم کے طور پر پیش کرتے ہیں،اگر وہ خوشامد اور عزیز رشتے داروں کو نوازنے میں محو ہیں،اپنی مسجدوں میں خود کو سجدوں میں مصروف ہیں ، اگر غیرت اور حمیت ان کے لئے ایک عجیب بات ہے ، انسانی اقدار ایک عجائب گھر میں رکھنے کی چیز ہے اور منافقت کے ذریعے وہ راج کر رہے ہیں تو بتائیے ااجنبی بات کیا ہے ؟ کیا بات عجیب ہے ؟
 کیا یہی سب برائیاں اور خامیاں ہمارا فیشن ، ہمارا چلن ، ہمارا طور طریقہ اور ہمارا فخر نہیں بن چکا ہے ؟ کیا یہ سب برائیاں ہمارے ہاں اچھائیوں کی سند نہیں حاصل کر چکیں؟کیا سچ بولنا ، خوشامد نہ کرنا ، غلط کو برملا غلط کہنا ، کسی کو گرائے بغیر آگے بڑھنے کا سوچنا ، مجموعی فائدوں پر ذاتی فائدے قربان کرنا ، عام لوگوں کا جن سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو ، حال چال پوچھنا ، بے غیرتی کو شخصیت کا حصہ بننے نہ دینا ، اپنے وقتی فائدے کا نہ سوچنا ، کسی بیمار کی یونہی بغیر فائدے کے عیادت کر دینا ، کسی کی مدد کر دینا ، کسی کا حال چال پوچھ لینا۔
یونہی اخلاقیات کی ، نیک نیتی کی ، سچائی کی بات چھیڑ دینا۔ کیا یہ سب ہمارے حلقوں ، اور زندگیوں میں قابل قبول صفات رہ گئی ہیں ، کیا یہ سب صفات بہت بڑے عیوب نہیں بن چکیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔اور اگر ایسا ہے تو پھر شور کیسا ؟ پھر پاکستان کے حکمرانوں کا رنگ ان کی عوام جیسا ہی تو ہے، کوئی فرق تو نہ ہوا، اور ایک ہی رنگ میں رنگے لوگوں کو بلا وجہ ایک دوسرے پر تنقید کرنا زیب نہیں دیتا۔ہم جسم ہیں ،پاکستان کے حکمران ہمارا چہرہ ہیں۔میں ان حکمرانوں کے وکالت نہیں کر رہا بلکہ اس آڑ کی نشاندھی کر رہا ہوں جس کے پیچھے ہم خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔آپ کی طرح میں بھی ان حکمرانوں کا بہی خواہ بالکل نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے ان سے کوئی ذاتی مفاد ہے۔ صرف توجہ دلانی مقصود ہے اس بات کی طرف کہ ہم جو برائیاں اور گھناؤنی حرکات و عادات اپنے حکمرانوں میں دیکھتے ہیں کیا کبھی خود کو بھی صاف و شفاف انسانیت کے شیشے میں پرکھ کر دیکھا ہے؟
 یہی کڑوی سچائی ہے۔یہی حقیقت ہے۔ جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے۔ خود کی حالت کی صحیح تشخیص نہیں کریں گے ہم خود پہ ظلم ڈھانے والے ’’ ظالم‘‘ کہلائیں گے۔ اور ہم پر ایسے عجیب و غریب حکمران مسلط رہیں گے جن کے بارے میں ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا۔
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔