July 2012

انگریزی فوبیا

تحریر:زبیر طیب( براۓ بنات عائشہ)
انگریزی بولنے کے شوق نے ہمیں پھسٹڈی قوم بنا دیا ہے ۔کیا سیاستدان ، امرائ، طلبائ‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ باوردی اور بے وردی چھوٹے بڑے افسران ،کبھی کبھار دیہاتوں میں جانے والے شہری اور شہروں میں نوکری کرنے والے دیہاتی، ماڈرن بننے اور نظر آنے والی خواتین‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ نظر آنے کے خواہش مند بی اے فیل اورمیٹرک پاس خواتین و حضرات دوران گفتگو انگریزی کے الفاظ یا ٹوٹے پھوٹے جملے استعمال کر کے دوسروں پر دھاک بٹھانے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے

مبارک بھی. شکریہ بھی

تحریر:زبیر طیب
غزہ میں جشن اور خوشی کا سماں تھا۔غزہ کی پٹی پر جوق در جوق لوگ پہنچ رہے تھے۔انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر یہاں موجزن تھا۔مسرت اور خوشی سے انکے چہرے دمک رہے تھے۔ہر شخص ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا تھا۔آج بہت عرصے بعد فلسطینیوں کے غمزدہ چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔کچھ دیر بعد ایک عظیم الشان فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھے۔

مزید پڑھیے

’’ایک پھول سی بچی‘‘

تحریر: زبیر طیب
بہت عرصہ ہو گیا، اسلام آباد کے داخلی راستوں کی اکثر رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور وہ خاردار تاریں بھی اب نظروں سے نہیں الجھتی جو سن ۷۰۰۲ئ جولائی میں جا بجا بچھائی گئیں تھیں۔ یہ سال دردناک غموں اور دکھوں سے بھرا سال تھا۔اسلام آباد کی کوئی سڑک ایسی نہیں ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دل غمگین سا ہو جائے اور آنکھیں اشک بار ہو جائیں. ہاں مگر ایک جگہ، ایک سڑک ایسی ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دل بھاری سا ہوجاتا ہے اور جسم غم و غصہ کے مارے ہچکولے کھانے لگتا ہے۔

مزید پڑھیے

بھول

زبیر طیب( مضمون براۓ المرابطون)
’’ہم امریکن ہیں اور دنیا کی’’ اعلی تہذیب یافتہ ‘‘قوم ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں ’’بدمعاشی ‘‘نظر آئے اس کو ختم کردیا جائے، ہم امریکن کے ہاں دنیا میں سب سے بڑی’’ بدمعاشی ‘‘اپنا حق مانگنا اور آزاد رہنا ہے۔ اس حق نہ مانگنے اورآزادی کو بھول جانے کا نام شرافت ہے۔ اور جو شرافت سے رہے ہم اسے امن پسند اور اعلی تہذیب یافتہ قوم کی سند دیتے ہیں ‘‘

مزید پڑھیے

تصوف اور جہاد کا حسین امتزاج

زبیر طیب ﴿مضمون برائے المرابطون﴾
روحانی ترقی اور کمال باطنی کا آخری لازمی نتیجہ شوق شہادت ہے۔﴿سیرت سید احمد شہید﴾(رح)
÷یہ بات یقینی ہے کہ کوئی روحانی ترقی کے کتنے ہی منازل کیوں نہ طے کر لے،اخلاص و للہیت میں جس قدر کیوں نہ ڈوب جائے،روحانی و قلبی قوت کی بلندیوں کو چھونے لگے،ریاضت و عبادت میں کتنا ہی کمال کیوں نہ حاصل کر لے،صفائی و باطن اور تہذیب نفس کے لئے لیل و نہار یکساں کر دے،لیکن تصوف کے اس درجے کو پہنچ کر بھی اسے اگر مزید روحانی ترقی اور کمال باطنی کے اوج ثریا کو چھونا ہے

مزید پڑھیے

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>