بھول

زبیر طیب( مضمون براۓ المرابطون)
’’ہم امریکن ہیں اور دنیا کی’’ اعلی تہذیب یافتہ ‘‘قوم ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں ’’بدمعاشی ‘‘نظر آئے اس کو ختم کردیا جائے، ہم امریکن کے ہاں دنیا میں سب سے بڑی’’ بدمعاشی ‘‘اپنا حق مانگنا اور آزاد رہنا ہے۔ اس حق نہ مانگنے اورآزادی کو بھول جانے کا نام شرافت ہے۔ اور جو شرافت سے رہے ہم اسے امن پسند اور اعلی تہذیب یافتہ قوم کی سند دیتے ہیں ‘‘
    امریکی آج بھی خود کو’’ اعلی تہذیب یافتہ‘‘ قوم کہتے نہیں تھکتے حالانکہ ان کی اعلی تہذیبی اقدار روز افزوں دنیا کے سامنے ننگی ہورہی ہے لیکن یہ پھر بھی بڑی ڈھٹائی سے خود کو تہذیب یافتہ اور امن پسند کہلانے کی ضد پکڑے ہوئے ہیں اوراپنے مقابلے میں دوسری اقوام کو اجڈ اور جاہل سمجھتے ہیں ،دہشت گرد اور انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کرتے ہیں اور اس قوم پر بد مست ہاتھی کی طرح چڑھ دوڑتے ہیں تاکہ انہیں شرافت کا درس دے سکیں ۔
    حال ہی میں امریکہ کا دیا گیا یہ بیان کہ’’ طالبان دہشت گردی چھوڑ کر امن پسند بن جائیں اور عوام دشمنی چھوڑ دیں ‘‘جس کسی نے بھی’’ انکل سام‘‘ کا یہ بیان پڑھا ہوگا اسے بیان دینے والے کی دماغی حالت پر شک ضرور ہوا ہوگا ۔ابھی کچھ ہی دن پہلے قرآن بے حرمتی کا واقعہ طالبان کی طرف سے نہیں ان بدباطن امریکیوں کی طرف سے رونما ہوا اور افغان عوام کی طرف سے ہی ان امریکیوں کوان کی اس حرکت کی وجہ سے ناکوں چنے چبوائے گئے ۔اس کے باوجود ان امریکیوں کو عقل نہ آئی او ر پھر ایک شرمناک حرکت کر ڈالی طالبان کو عوام دشمن کہنے والے ان بد بخت امریکیوں نے افغانستان کے صوبہ قندھار میں دو مختلف مقامات پر جاکر گھروں میں سوئے ہوئے16 معصوم بچوں ،خواتین اور مردوں کو بڑی درندگی کے ساتھ شہید کر دیا ابھی یہ دلخراش واقعہ کسی کو بھولا نہ تھا کہ امریکہ کا یہ’’ تازہ بیان‘‘ پڑھ کر اس شدید جھنجھلاہٹ کا احساس ہوا جو انہیں افغانستان میں مسلسل شکست کی صورت پیش آرہی ہے۔ذہنی اور جسمانی طور پر شکست خوردہ امریکیوں کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ طالبان سے سخت خوفزدہ ہے ۔اس لیے وہ اول فول بول کر خود کر’’ صاحب بہادر‘‘ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے ۔
    دنیا جانتی ہے کہ انہی امریکیوں نے ہی دنیا کا چین و سکون برباد کیا خود کو’’ اعلی تہذیبی اقدار‘‘ سمجھنے والی یہ قوم اندر سے بد تہذیبی کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔خود کو امن پسند کہنے والی یہ قوم لاکھوں بے گنا ہ عراقیوں کے خون کی ذمہ دار ہے۔ عالمی دہشت گرد اسرائیل کی پشت پناہی بھی اسی امریکہ کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک ہے تاکہ فلسطینیوں کو ان کا حق نہ دیا جائے اور چن چن کر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ اپنے پیدائشی حق کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو دہشت گرد اسی امریکہ نے ہی قرار دیا ہے جو خود کو آزادی کی ترجمانی کا سب سے بڑا علمبردار سمجھتا ہے ،سب سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں امریکہ میں پلتی بڑھتی اور جوان ہوتی ہیں تا کہ امن سے رہنے والی قوموں کا امن اور سکون غا رت کیا جائے ۔دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جہا ں امریکیوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت نہ ہو ۔خود کو ’’صلح جو‘‘ سمجھنے والا امریکہ اصل میں’’ پھڈے باز‘‘ ہے جس کی نس نس میں شیطانیت کا زہر بھراہوا ہے ۔امریکہ پٹاخہ چلانے اور اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والوں کو بھی دہشت گرد انتا ہے حالانکہ اگر دہشت گردی کی تاریخ مرتب کی جائے تو دہشت گردی کا سب سے بڑا مرتکب امریکہ ہی قرار دیا جائے گا ۔لیکن ان سب حقائق کے باوجود وہ طالبان کو اس کا سبق دینے میں اپنا گلہ خشک کررہا ہے طالبان کی مزاحمت کو دہشت گردی اور عوام دشمنی سمجھنے والا امریکہ اب افغانستان میں آخری سانسیں لے رہا ہے جلد ہی دنیا اس فرعونی روح کی آخری ہچکی سنے گی اور دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف لے جانے والا یہ ظالم اپنے انجا م بدکو پہنچے گا کیونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ ظلم ہمیشہ نہیں رہتا ظالم کو خوفناک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
    لیکن اس موقع پر ہمیں مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ میدانوں میں شکست کھانے کے بعد یہ باؤلے کتے کی طرح مسلمانوں کی ثقافت اور معاشرہ کو بدلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادے گا ،وہ چاہے گاکہ اسلا م کو ان کے دلوں سے نکال کر انہیں’’ بے ضرر‘‘سا ثقافتی مسلمان بنادیا جائے صرف نام کے مسلمان ہو کر شاید یہ جذبہ جہاد کو دلوں سے نکال دیں اس لیے اس شکست خوردہ چالاک دشمن سے ہر محاذپر جنگ کے لیے تیا ر رہنا ہوگا ۔تاکہ امت مسلمہ کل روز قیامت اپنے پیا رے نبی ö کے سامنے سرخرو ہو سکے کہ جیسا دین اسلا م آپ ہمیں سونپ کر پردہ فرماگئے تھے ہم نے اس کی آخری دم تک حفاظت کی اور اپنی جانیں تک اس پر لٹادیں ۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔