موسم، مشغلے اور اشتہار

تحریر : زبیر طیب
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے اور یہ ہر حال میں اپنی مدت پوری کرے گی۔ہر پارٹی اپنی حدود میں رہ کر انتخابی مہم چلائے۔کسی کو حکومت پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔قبل از وقت انتخابات کا نعرہ لگانے والے ابھی انتظار کریں۔وطن عزیز میں سیاسی موسم زوروں پر ہے۔پارٹیاں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر عوام کی’’ دیکھ بھال ‘‘کے لئے چھلانگیں لگا رہی ہیں۔سیاسی فصلی بٹیرے نگاہوں ہی نگاہوں میں فصلوں کو تول رہے ہیں کہ اب کس فصل پر پھل آنے کو تیار ہے تاکہ اس نئی فصل پر اگلے پانچ سالوں کے لئے ڈیرے ڈال لیے جائیں۔دوسری طرف حکومت جانے سے پہلے پہلے بچا کھچا سب سمیٹ کر لے جانا چاہتی ہے۔کیونکہ اسے اپنی پانچ سالہ ’’عوامی خدمت‘‘پر اچھی طرح اطمینان ہے کہ اب اسے اپنی ’’باری ‘‘کا لمبا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس لئے اب وہ اپنی بھری ہوئی تھیلیوں کو مزید بھرنا چاہتی ہے ۔حال ہی میں گیس،بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی اسی تیاری کا ایک حصہ ہے۔اور یہ سیاسی موسم کی ہی ایک رسم ہے۔اسی سیاسی موسم کے دوران مخالف پارٹیوں کی طرف سے حکومت کو مظاہرے اور دھرنے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔اور بعض اوقات حکومت کا سیاسی موسم کی حد سے بڑھ کر سوغات دینے پر عوام بھی سڑکوں پر نکل آتی ہے۔سیاسی موسم کی خوشی میں جہاں عوام مہنگائی سے نئی ’’کبڈی‘‘کھیلنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں، تو دوسری طرف ہمارے حکمران مہنگائی کی نشوونما کے لئے تیل ،بجلی اور گیس کی مزید’’گوڈی‘‘کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

سیاسی موسم میں عوام کے لئے جہاں بہت سی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں وہاں یہ موسم کچھ فائدہ مند بھی ثابت ہوتا ہے۔وہ ارکان اسمبلی جو 4 سالوں تک سالانہ ترقیاتی فنڈ کو اپنی ذاتی سہولیات اور اقربا پروری پر خرچ کرتے ہیں اور عوام کواس فنڈ کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔وہ بھی اس موسم میں اپنے حلقے کی سڑکیں، گندے نالے،اور ٹوٹے پائپ لائنوں کی مرمت کی ساری ذمہ داری لے لیتے ہیں۔وہ ارکان جو اپنے حلقے کی شکل ہی خال خال دیکھتے ہیں وہ بھی اس موسم میں یومیہ دورے کر کے عوام کے گھر گھر جا کر مسیحا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ جو عوام کا نمائندہ منتخب ہونے کے بعد عوام کو ہی بھول جاتے ہیں بلکہ اپنا زیادہ تر وقت باہر بڑے شہروں میں ذاتی فائدہ اٹھانے کے لئے رہتے ہیں اور قدرتی آفات میں بھی یاد نہیں آتے وہ بھی اس موسم میں ’’ووٹروں ‘‘کی منتیں ترلے کر تے نظر آ تے ہیں۔لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ رکن اسمبلی بننے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جو بعد میں عوام سے ہی نکالے جاتے ہیں۔بلکہ دس سے ضرب دے کر نکالے جاتے ہیں۔

سیاسی موسم مظاہروں کے ساتھ ہڑتالوں کی پرورش کے لئے بھی بہت مفید ہوتا ہے۔اس موسم میں ہڑتالیں خود مظاہرہ کرنے والوں کے لئے یا حکومت کے لئے مناسب ہوں یا نہ ہوں مگر عوام کے لئے بڑی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔مثلاً پٹرول پمپوں کی ہڑتال سے جہاں سفید پوشوں کی بچت ہو گی وہاں لوگوں میں ’’واک‘‘کا رجحان بھی پیدا ہو گا۔جو کہ اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔اور اس ہڑتال سے حکومتی گاڑیوں پر روزانہ کے حساب سے خرچ ہونے والے تیل کی بھی بچت ہو گی جو کہ سراسر عوام کے لئے فائدہ مند ہے۔اخبار والے ہڑتال کریں گے تو عوام روزانہ تھوک کے حساب سے شائع ہونے والی قتل وٰغارت اور لوٹ مار کی خبریں نہیں پڑھ پائیں گے ،جس سے معاشرے میں امن و امان سا محسوس ہو گا۔ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جائیں تو عوام میں اپنی صحت برقرار رکھنے کا شعور اجاگر ہو گا۔پولیس ہڑتال پر چلی جائے تو عوام کو کچھ دنوں کے لئے سکھ کا سانس لینے میں بڑی راحت محسوس ہو گی۔اور’’ اپنی حفاظت آپ‘‘ کا جذبہ بھی پیدا ہو گا۔حجام ہڑتال کر لیں تو مردو عورت کے لئے کام کرنے والی’’ این جی اوز‘‘ کا کام آسان ہو جائے گا۔وغیرہ وغیرہ
اس لئے سیاسی موسم کی ان ہڑتالوں اور مظاہروں سے حکومت کو چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔حکومت کا ہر کام ہر ارادہ عوام کے بھلے ہی کے لئے تو ہوتا ہے۔وہ اطمینان سے اپنی مدت پوری کرے اور قبل از وقت انتخابات کا نعرہ لگانے والوں پر کان نہ دھرے اور ’’شب خون‘‘مارنے والوں کو ایسی ہی ’’تڑیاں‘‘لگائے رکھیں۔

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ گیس پر مزید ٹیکس ’’لگانے‘‘کی منظوری دے دی ہے۔

برصغیرکے مغلیہ حکمرانوں کا محبوب مشغلہ ’’لگانا‘‘ہوا کرتا تھا۔جس میں ’’دل لگانا‘‘’’دربار لگانا‘‘اور باغات میں ’’شجر لگانا‘‘سرفہرست تھا۔پاکستان بننے کے بعد ہمارے کچھ گئے گزرے ’’ شغلیہ حکمرانوں‘‘ نے بھی اسی روایت کو جاری رکھا۔چنانچہ ان کا بھی سب سے بڑا کام’’لگانا‘‘ہی رہا۔جس میں ایک دوسرے پہ ’’الزام لگانا‘‘’’تہمت لگانا‘‘عوام کو’’ لارے لپے لگانا‘‘سرکاری خزانے کو ’’پھکی لگانا‘‘اور اپنے ’’مخالفین کو ٹھکانے لگانا‘‘وغیرہ قابل ذکر ہے۔

اس لئے عوام سے اپیل ہے کہ وہ حکومت کے اس مشغلہ کو دل پر مت لے اور برداشت سے کام لے۔آخر ہمارے موجودہ حکمران 64سال سے جاری اس ’’لگانا‘‘پالیسی کوترک کر کے ’’باغی‘‘کیوں کہلانا چاہیں گے۔ آخر ’’روایت ‘‘بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔اور اس روایت کو قائم کرنے میں موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی پچھلی چار پیپلزپارٹی کی حکومتوں پر واضح برتری حاصل کی ہے۔اور پورے ’’اخلاص‘‘کے ساتھ اس روایت کو قائم کرنے میں اپنا تن اور من دونوں کو لگائے رکھا ہے۔اور اپنے آخری دن تک اس قدیم روایت کو قائم رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔

آخر میں ایک اشتہار ملاحظہ فرمائیں۔
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا حکومت کو اس سلسلہ میں ٹینڈر مطلوب ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے حکومت کی جانب سے اپنے اوپر پے درپے وارد ہوئے مصائب اور بلاؤں کو ٹالنے کے لئے صدقے کے کالے بکرے کثیر تعداد میں ذبح کیے گئے ،جسکی وجہ سے ملک میں کالے بکروں کی زبردست ’’قلت ‘‘بلکہ ’’قحط‘‘ پیدا ہو گیا ہے اور بلا ئیں ہیں کہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہیں۔بلاؤں کے نام صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں۔اس لئے ایسے رنگ ساز حضرات کی خدمات کی اشد ضرورت ہے جو سفید یا چتکبرے بکرے کو کالے رنگ میں اس طرح رنگ سکیں کہ’’ نقلی مانند اصلی ‘‘کا تاثر دے سکیں،اور ان کا صدقہ قبول ہونے کا شرطیہ امکان بھی پیدا ہو سکے۔اس قسم کے ’’رنگ شدہ‘‘بکرے حکومت براہ راست بھی خریدنے کے لئے تیار ہو گی۔بشرطیکہ رنگ پکا ہو، اور بکرے کو نہلانے یا بارش کی وجہ سے اتر نہ جائے۔لہذا دونوں صورتوں یعنی ’’رنگ سازی‘‘یا ’’ریڈی میڈ‘‘بکروں دونوں کی صورت میں اپنے ٹینڈر وفاقی وزیر اطلاعات کی معرفت بھجوائیں جائیں، جو کہ اشتہار ہذا کی اشاعت کے بعد ایک ہفتہ تک لازم ہو گا۔کیونکہ اگر اس سلسلے میں تاخیر ہو گی تو کہیں ایسا نہ ہو ان بکروں کی قربانی کا وقت گزر جائے اور حکومتی اہلکار بلاؤں کو نہ ٹالنے کی وجہ سے سخت ڈپریشن کا شکار ہو کر’’ ائیر ایمبولینس‘‘ والوں کو تکلیف دیتے پھریں۔واضح رہے کچا رنگ استعمال کرنے والوں جعلسازوں کے خلاف بھر پور تادیبی کاروائی کی جائے گی۔المشتہر پی۔پی۔پی

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔