واویلا

تحریر : زبیر طیب
۹ اپریل کو دوسری ’’ قومی انرجی کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا، امپورٹڈ’’ اے سیوں‘‘ کی ٹھنڈی ہواؤں کے بیچ وبیچ، منرل واٹر کی بوتلیں پی پی کر اس کانفرنس میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ خلوص دل اور نیک نیتی سے بجلی کی بچت کو یقینی بنائیں تاکہ سب کو زیادہ سے زیادہ بجلی ملے۔عجیب بلکہ عجیب و غریب ہے یہ قوم بھی۔ یہ خوب جانتی ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور اس کی کل آمدنی سے قومی درد میں ڈوبے رہبرانِ قوم کا پیٹ بھی مشکل ہی سے بھرتا ہے ، پھر بھی کفایت شعاری نام کو نہیں۔اور صبر کا دامن انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ یہاں تک کہ بجلی بحران کی وجہ سے’’ ڈیرہ ‘‘میں گدھوں کے گلے میں میٹر لگا کر احتجاج بھی کیا گیا ہے اور مختلف شہروں میں سینکڑوں افراد کا ٹائر جلا کر سڑک بلاک کرنے ، مظاہرے اور دھرنے دینے کاسلسلہ تا حال جاری ہے۔
اس فضول خرچ قوم کو جس میں ذرا بھی حوصلہ نہیں حکومت بجلی بچا کر کفایت شعاری کا درس دیتی ہے اور یہ ڈنڈے لے کر سڑکوں پہ نکل آتی ہے۔ اِدھر’’ چھوٹے میاں ‘‘ ہیں جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ان کی خوشی کا سبب یہ نہیں کہ’’ پی پی پی ‘‘ مصیبت میں ہے بلکہ یہ ہے کہ قوم خوب خوب’’ ٹائر‘‘ جلا رہی ہے اور ’’ڈینگی‘‘ چونکہ زیادہ تر ’’ ٹائروں‘‘ میں پرورش پاتا ہے، اس لئے اس موذی سے چھٹکارے کی سبیل خود بخود پیدا ہو گئی۔شاید اسی لئے انہوں نے اسلا م آباد تک پیدل لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا ہے۔ اب دیکھتے ہے کہ ’’ٹائر جلاؤ ، ڈینگی مکاؤ‘‘ کی یہ مہم کب تک جاری رہتی ہے۔
 ادھرکپتان صاحب کے پاس چونکہ ’’سونامی‘‘ ہے جو نہ ڈینگی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ بجلی لا سکتا ہے۔ اس لئے وہ فی الحال خاموش ہیں۔ ویسے خبر ہے کہ وہ اپنے ساتھیوںکے ساتھ طویل صلاح مشورے کے بعد جلد کوئی اعلان کرنے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بال سے سارے ڈینگی اْڑانے کا ’’دل خوش کْن‘‘ اعلان فرما دیں اور ساتھ یہ بھی کہ ’’سونامی‘‘ کے فالتو پانی سے ’’ہزاروں من‘‘ بجلی پیدا کی جائے گی۔
بہر حال عوام کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی فضول خرچیوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے زرداری صاحب ناراض ہو کر بھارت یاترا کو نکل گئے ہیں اور ’’گدی نشین‘‘ صاحب بیرونِ ملک دوروں پر دورے لگا رہے ہیں۔ لیکن باہر کے دوروں پر جا کر بھی ان کا دل اپنی عوام کی یاد میں مچلتا رہا۔انہوں نے وہیں سے اس اعلان کے ساتھ اٹھارھویں مرتبہ لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے لیا کہ اگر اٹھارہ سو مرتبہ بھی نوٹس لینا پڑا تو ضرور لوں گا کہ آخروہ اٹھارہ کروڑ عوام کے’’ منتخب کردہ وزیرِ اعظم‘‘ ہیں کوئی ’’چپڑاسی‘‘ نہیں۔ وزیرِ اعظم کے اعلان کے ساتھ ہی مجوّزہ وزیرِ اعظم نے اعلان فرما دیا کہ’’لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی ‘‘۔ اب تو محترم چیف جسٹس صاحب کو یقین کر لینا چاہیے کہ ہمارے بیچارے وزیرِ اعظم کتنے بے بس ہیں۔ وہ تو ’’خط لکھنے‘‘ سمیت بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ’’کوئی‘‘ کرنے دے تب ناں۔ یہی بات بیچارے اعتزاز احسن’’ سات رکنی بنچ‘‘ کو سمجھا سمجھا کے بیمار پڑ گئے۔
’’گدی نشین صاحب‘‘ تو اس شاہ خرچ قوم کے ہاتھوں بجلی کی مدّ میں اڑائے گئے پی۔ایس۔او کے’’ دو سو پندرہ ‘‘ارب روپے بھی دینے کو تیار ہو گئے تھے لیکن’’ پی پی پی‘‘ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ایک نیوز چینل پر یہ کہہ کر ’’کھوتا ہی کھوہ‘‘ میں ڈال دیا کہ حکومت خود ’’پائی پائی‘‘ کی محتاج ہے، پیسے کہاں سے لائے ؟ اسی لئے عوام کو بے چاری ’’مظلوم حکومت‘‘ کا کچھ تو خیال کرنا چاہیے، بجلی کی شکل اگر دکھائی بھی دے جائے تو منہ موڑ لیا جائے اور بجلی کو نہ چھیڑا جائے۔
٭.٭.٭
کپتان صاحب نے کہا ہے کہ حکومتِ وقت جو کر رہی ہے غلط کر رہی ہے۔ اگر میں برسرِ اقتدار ہوتا تو یہ سب کچھ ایسے نہ ہوتا۔اس لئے اگر آپ کو دہشت گردی سے نجات، معاشی استحکام اور فرسودہ نظام سے چھٹکارا چاہیئے تو اس کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ مجھے اور میری جماعت کو کامیاب بنائیے۔
کپتان صاحب حکومت سنبھالنے کے لئے پر تول رہے ہیں اور ان کا بھی تمام حکومتوں کی طرح ایک ’’سیاسی چارٹ‘‘ پیش نظر ہو گا۔آئیے آپ کو اس ’’سیاسی چارٹ ‘‘ سے روشناس کرواتے ہیں۔کپتان صاحب کا سیاسی چارٹ ملاحظہ کریں:
’’الیکشن ہوتے ہیں اور میں برسرِ اقتدار آجاتا ہوں۔ سب سے پہلا اور آخری کام میں یہ کروں گا کہ پانچ سال گزارنے کے لئے ایک چارٹ بناؤں گا۔
پہلا سال میں یہ کہہ کر آسانی سے گزار لوں گا کہ وعدے تب ہی پورے ہوں گے جب گزشتہ حکومت کا پھیلایا ہوا گند اور بد انتظامی صاف ہوجائے۔ لہٰذا آپ نے جب اتنا صبر کیا ہے تو ایک سال اور صبر کرلیں اور ملک کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کے لئے میرا بھرپور ساتھ دیں۔
دوسرا برس میں یہ کہہ کر بتا لوں گا کہ ہم نے نئے منصوبوں پر مشاورت کر لی ہے اور اب پالیسی مرتب ہو رہی ہے جس کے سبب چند ماہ میں آپ اپنی زندگی کو بدلتا ہوا محسوس کریں گے۔
تیسرے برس میں واویلا شروع کردوں گا کہ کچھ جمہوریت دشمن نادیدہ قوتیں میری حکومت کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ آپ کی منتخب حکومت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں تاکہ ملک کو دوبارہ تاریک دور میں دھکیل دیا جائے۔آپ میرا بھرپور ساتھ دیں۔ فتح جمہوریت کی ہی ہوگی۔
اگر میں خوش قسمت ہوا اور چوتھا برس مجھے نصیب ہوا تو پھرعوام کو اس طرح اعتماد میں لے کر گزارا جاسکتا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کی سرحدوں پر جو غیر یقینی صورتحال ہے اس کے پیشِ نظر ہمیں ترقیاتی بجٹ میں مجبوراً کٹوتی کرنا پڑے گی۔ لہٰذا، ملک کی بقا کے لئے ہم سب کو قربانی دینی چاہیئے۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اس کے علاوہ سال بھر سے ملک کے مختلف علاقوں میں جاری خشک سالی نے بھی زراعت پر منفی اثرات چھوڑے ہیں اور کچھ علاقوں میں سیلاب نے فصلیں اجاڑ دی ہیں۔ لیکن آپ پریشان نہ ہوں اگلے برس تک ہم اس بحران سے نکل آئیں گے۔
اور جب خدا خدا کر کے پانچواں برس لگے گا تو میں سینہ تان کر کہہ سکوں گا کہ ہم نے اپنے دور میں اور کچھ کیا یا نہیں کیا لیکن جمہوری تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔
لہذا، پالیسیوں کے تسلسل کے لئے ہم پر آئندہ انتخابات میں بھی اعتماد کا اظہار کریں تاکہ آپ کی فلاح کے لئے کیے گئے اقدامات ضائع نہ ہوجائیں۔’’ جمہوریت ہے تو ہم ہیں اور ہم ہیں تو کیا غم ہے۔‘‘
یہ وہ چارٹ ہے جو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ہر منتخب و غیر منتخب حکومت کامیابی کے ساتھ استعمال کرتی آ رہی ہے۔اور ہم اس ’’سیاسی چارٹ‘‘ سے امیدیں لگائے اپنے ماہ و سال گزاردیتے ہیں۔
٭.٭.٭
ایک خبر کے مطابق حال ہی میں کئے گئے اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اور عوام اس ’’کمر درد‘‘ کو ٹھیک کرنے کے لئے ’’منی میراتھن‘‘ میں دوڑیں لگا رہی ہے۔
ملتان میں ہوئی ’’منی میراتھن ‘‘ کی تصویر میں مردو زن سب دوڑ رہے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ حالات کے ستائے ہوئے ان لوگوں کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ جو اس طرح، ان حالات میں بھی حکومت کے شہہ پر دوڑے چلے جا رہے ہیں۔
حکومت نے کبھی وہ کام نہیں کیا، جواس کا کام ہے۔ پھر بھی ہر حکومت بنوانے کی خاطر ووٹ ڈالنے کے لئے عام لوگ گھروں سے نکالے جاتے ہیں اور یہ بھلے لوگ نکل بھی آتے ہیں۔ بعد حکومت بن جانے کے ہمارے بھولے بھالے عوام خود بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ارے! یہ کیا چیز بن گئی ہے؟ یہ وہ چیز تو نہیں بنی جو ہم بنانا چاہتے تھے۔
جب کبھی ان حکمرانوں سے کہا جاتا ہے کہ: ’’چلو! تم ان کو اپنے وعدوں کے مطابق روٹی‘ کپڑااور مکان ہی فراہم کردو‘‘۔ تووہ کہتے ہیں کہ: ’’زرِ مبادلہ صرف دو ہفتے کا رہ گیاہے۔ ہم ڈھائی ماہ میں’’ مختصر ترین ‘‘ صرف’’ ۲۱‘‘ غیر ملکی دورے کر پائے ہیں۔ قومی خزانے سے اس حکومت ہی کا خرچہ پانی پورا نہیں ہو پا رہا ہے‘ جو عوام نے بنا کر ہمارے سر ڈال دی ہے۔ خود عوامی حکمرانوں کا خرچہ پانی پورا کرنے کے لیے مزید زرِ مبادلہ اور آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی ضرورت پڑگئی ہے۔وہ تو ترس کھایا ’’آئی ایم ایف‘‘ نے کہ ہم جیسے نازک اندام’’ شاہی حکمرانوں ‘‘کو قطار میں سب سے آگے کھڑا کیا۔ ورنہ وزرائ اور ارکانِ اسمبلی کا خرچہ پانی بھی پورانہ ہو پاتا۔’’ تمہیں عوام کے خرچے پانی کی پڑی ہوئی ہے‘‘۔ہم تو بس عوام کو سڑکوں پر دوڑا سکتے ہیں، ورزش کے نام پر، چیریٹی کے نام پر. اگر کوئی پوچھے کہ حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں، شاہانہ خرچوں اور ’’منی میراتھنوں ‘‘کے عوض بھلا عوام کو کیا ملا؟ تو وہ یہ بھی نہیں کہہ پاتے کہ: ’’روٹی پانچ سے دس روپے کی‘ کپڑے کی قیمت قوتِ خرید سے باہر اور مکان خریدنے یا بنانے کی لاگت خواب وخیال سے بھی پرے‘‘.
 ہماے دل جلے بچوں نے تو ایک ترانے تک کو ‘ تحریف کر کے حسبِ حالات حاضرہ بنا ڈالا ہے کہ:
 یہ میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے یہ اْس کا پاکستان ہے جو’’ صدرِ پاکستان ‘‘ہے۔
اصل خرابی کی جڑ اس نظام میں ہے۔ جو حکومت بنانے کے نظام کی حیثیت سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔اِس نظام کی پشت پر ہمارے دین ومذہب‘ ہماری تہذیب وتمدن کی تو کوئی طاقت ہی نہیں۔ نہ تقویٰ ہے نہ شوریٰ۔ یہ ہمارانظام کیسے ہوا؟ یہ ہمارے ہی ہاتھوں سے ہم پر ’’ہمارے دشمنوں کے کارندے‘‘ مسلط کروانے کا ایک نہایت کامیاب نظام ہے۔ اگر اِس نظام سے چھٹکارا نہیں پایا‘ تو ہم سے ہمارا دین تو چھین ہی لیا گیا ہے۔ایک ایک کر کے‘ ہمیں ہمارے رب کی طرف سے عطا کی جانے والی ہر نعمتِ دنیا بھی چھین لی جائے گی۔ یہی روش اور اسی نظام کی حکمرانی برقرار رہی تواے اہلِ پاکستان ایک روز تم بہت پچھتاؤ گے۔
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔