ایک کہانی ایک سبق

تحریر: زبیر طیب
وطن عزیز میں کرپشن کی روح فرسا کہانیاں اقتدار کے بڑے ایوانوں سے گلی کوچوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ جس کی ذمہ داری قومی وسائل کو بچانا ہے وہی لوٹ مار میں ملوث نظر آتا ہے۔مالی بے ضابطگیوں کے حیرت انگیز مناظر سامنے آتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کوملکی وسائل بیچ کر اپنا بینک بیلنس بڑھانے کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ اللہ کی پناہ۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود بھی انکی پیاس نہیں بجھ رہی۔دولت اور طاقت کا ایسا نشہ ان پر طاری ہے جس نے انہیں کسی قسم کے احتساب سے بے گانہ کر دیا ہے۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر یہ اپنے آپ کو ملکی خزانہ کا کلی حقدار سمجھ لیتے ہیں۔کوئی اپنے لیے لگثرری گاڑیاں خریدتا ہے کوئی بڑے بڑے پلاٹ اپنے نام کروا کر محلات تعمیر کرواتا ہے۔کوئی بوریاں بھر بھر کر ملکی پیسہ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کروا دیتا ہے۔یہ ملکی مہذب لٹیرے اس عوام پر حکمرانی کرتے ہیں جہاں لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں۔جہاں ایک کروڑ سے زائد افراد کی ماہانہ آمدنی ایک ہزار سے بھی کم ہے۔یہ ان شہروں پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں جہاں بیسیوں کچی آبادیاں ہیں جہاں انسان کوڑے کے ڈھیروں اور کچرا گھروں سے روٹی کے ٹکڑے چن چن کر کھاتے ہیں جہاں امن و امان کی یہ حالت ہے کہ لوگ دروازوں کو تالے لگا کر رات بھر جاگتے ہیں۔جہاں آج بھی کروڑوں لوگ برسوں سے ایک عدالت سے دوسری عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں لیکن انکی کوئی سنوائی نہیں ہوتی،یہ لوگ اس ملک کو بیچ کو کھا رہے ہیں جہاں کے ۰۶ فیصد عوام صدیوں سے کیچڑ چھان کر پانی پیتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں مختلف کرپشن کیسز میں قوم کے ۳۲۸ ارب روپے غبن کیے گئے ہیں۔لیکن کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی جا سکی۔سب کے سب لٹیرے ایک دوسرے کو کامیاب ڈاکے کی شاباش دیتے بچ نکلے۔قوم کے خون پسینے کی کمائی اپنے اوپر پانی کی طرح بہانے لگے،بے حس قوم چپ چاپ یہ سب ہوتا دیکھتی رہی،جو آیا ملک کو بیچ کھا کر بیرون ملک چلا گیا۔ادارے ختم ہو گئے،ملکی مسائل کی بھر مار ہو گئی،غریب بھوک اور پیاس سے ایڑیاں رگڑنے لگے۔غربت کے مارے لوگ خود کشیاں کرنے لگے۔لیکن یہ لٹیرے اپنے محلوں میں بیٹھ کر قیمتی انگوٹھیاں پہنے خوش گپیوں میں مصروف رہے۔دن بھر کی لوٹ مار کے بعد جو ہاتھ لگا اسے آپس میں بانٹ کر قہقے لگاتے رہے۔لیکن کب تک؟کبھی نہ کبھی خدا کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئے گی۔پھر چاہے کوئی کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہو اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔پھر جو یہ کہتے ہیں کہ انکا اقتدار ،انکی دولت، انکی طاقت قیامت تک برقرار رہے گی وہی زندگی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔کیونکہ سب سے بڑے محتسب اعلیٰ کی نظر ان پر ہے۔

دل چاہتا ہے آج آپ کو ماضی کی ایک کہانی سنائی جائے۔اس کے کردارواقعات بھی جیتے جاگتے مختلف بھیس بدلے اردگرد نظر آتے ہیں۔کہانی کہیں سے بھی شروع ہو وہ اختتام ہی کی طرف بڑھتی ہے۔اختتام ہی اہم ہوا کرتا ہے اوراختتام پر ہی نظر رکھنی ضروری ہے۔اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ جو لوگ انجام سے بے خبر رہتے ہیں اور دنیا کی دولت و طاقت میں کھو کر سب کچھ بھلا دیتے ہیں عموماً ان کو ایک غیر متوقع انجام سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

وہ پینتیس ملین لوگوں پر حکمرانی کرتا تھا۔اسکے ہر حکم پر لوگ بے چوں چراں عمل کرتے تھے۔سینکڑوں وزیر ہاتھ باندھے اسکے حکم کی تعمیل میں مستعد رہتے تھے۔وہ جب اپنے محل سے باہر نکلتا تو شہر کی سڑکوں کے اردگرد کھڑی عوام اس کا استقبال کرتی تھی۔اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں تھی۔اس نے بے دھڑک ملکی خزانے کو اپنے رشتہ داروں پر بہایا۔بیرون ملک بڑی بڑے جائیدادیں خریدیں۔بینک بیلنس میں اضافے کے علاوہ عوام پر ٹیکس کا اضافہ کیا۔ اس کی تاج پوشی پر ۵۶۱ باورچی فرانس سے خصوصی طیارے کے ذریعے اپنے ملک میں طلب کیے گئے اور صرف کھانے کی دعوت کا خرچہ ۰۶ ملین ڈالرز تھا۔وہ جسے چاہتا نواز دیتا اور جسے چاہتا ذلیل و رسوا کر دیتا۔پھر خدا کی لاٹھی حرکت میں آئی۔وہ ذلیل و رسوا ہو کر اپنے خاندان کے ساتھ ملک سے فرار ہو کر پہلے امریکہ اور پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔جس ملک میں بھی جاتا اسے دھتکار دیا جاتا۔بادشاہت ختم ہو گئی۔سوئزرلینڈ کے خفیہ اکاؤنٹس میں پڑے اربوں ڈالرز ضبط ہو گئے۔اور پھر ہر دم موت کی طرف بڑھتا یہ بادشاہ مختلف ملکوں میں جائے پناہ ڈھونڈتا ہوا مصر پہنچا۔قاہرہ کے ایک معمولی سے مکان میں اپنی بادشاہت کی بوسیدہ یادوں کے ساتھ اس طرح دم توڑ گیا کہ دو چار لوگوں نے اسی مکان کے صحن میں اسے دفن کر دیا۔یہ ایران کا بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا۔کچھ ہی سالوں بعد اسکی بیٹی جس نے اپنی ابتدائی زندگی شہزادیوں کی طرح بسر کی تھی لندن کے ایک ہوٹل میں انتہائی غربت کے عالم میں مردہ پائی گئی۔

دنیا میں شاید کتنے ہی ایسے بادشاہ ،وزیر،مشیر گزرے ہیں جن کو اپنے اقتدار پر مان تھا۔جن کو اپنے بینک بیلنس پر فخر تھا،جو لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننا اپنا حق سمجھتے تھے۔لوگوں کی خون پسینے کی کمائی کو اپنے باپ دادا کی کمائی کی طرح اپنے لیے حلال سمجھتے تھے۔تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے کہ پھر قدرت نے دنیا میں ان کا تماشا لوگوں کو دکھایا۔یہی لوگ پھر کشکول پکڑ کر گلی گلی پھرتے رہے اور لقموں کو ترستے رہے۔

لیکن یہ انسان بھی کمال کی مخلوق ہے۔یہ پرانے حکمرانوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنا تاج پہنتے ہیں اور پھر سے وہی کھیل تماشا شروع کر دیتے ہیں جیسے ان کا تاج قیامت تک ان کے سر پر یونہی سجا رہے گا۔اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس کہانی کے کردار اپنے انجام و اختتام سے بے خبر ہو جاتے ہیں تو عموماً ان کرداروں کو ایک غیر متوقع اختتام دیکھنا پڑتا ہے۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔