درد سے بھری ایک چھوٹی سی دنیا


 تحریر : زبیر طیب
چند روز پہلے مجھے اپنے ایک عزیز کی تیمارداری کے لئے ہسپتال کے اندر کی دنیا کو تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہسپتال گیا تو محسوس ہوا کہ جیسے ’’ سارا شہردرد میں ہے ‘‘
بہاولپور کا ’’بی وی ایچ ‘‘ ہسپتال بھی ’’درد کا ایک شہر‘‘ ہے۔ ایمر جنسی میں ٹپکتے ہوئے تازہ خون سے لیکر باہری گیٹ’’سے لاش لے کر نکلتی ہوئی ایمبولینس تک‘‘۔کتنا محدود ہے یہ چھوٹا سا شہر۔ یہ درد بھری دنیا کبھی کسی غمزدہ چہرے پر ڈھیروں خوشیاں دیکھتی ہے تو کبھی ہنستے مسکراتے چہروں کو روتا بلکتا دیکھ کر نظریں چرا لیتی ہے۔ عجب ہے یہ ’’درد سے بھری چھوٹی سی دنیا‘‘
صبح پو پھوٹھتے ہی یہ ’’ شہر درد‘‘ جاگ جاتا ہے ، اور مریضوں کی آنکھیں زخموں کی طرح کھل جاتی ہیں اور ہر وارڈ کی سونی گلیوں میں چہل پہل شروع ہو جاتی ہے۔ اخبار کے ہاکرز اس درد بھرے شہر میں مزید درد بانٹنے کے لئے پھیری لگانے آ جاتے ہیں اور چائے والے چھوٹے چھوٹے کپوں میں چائے انڈیلتے ہسپتال کے عملے کو ناشتہ کے طور پر پلانے میں مصروف ہوتے ہیں۔مریضوں کے سرہانے بیٹھے ان کے دکھ درد کے ساتھی بھی چائے خشک گلوں میں انڈیلنے کے لئے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اورکچھ اپنے مریضوں کے لئے ناشتہ کا انتظام کرنے ادھر ادھر پھیل جاتے ہیں۔
وراڈ کا انچارج ڈاکٹر اپنے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے پہلے مریضوں کو چیک کرنے کے لئے راؤنڈ کا آغاز کر دیتا ہے۔ وہ ہر مریض کے پاس جاتا ہے اور اس کی تمام حالت ایک کاغذ پر لکھتا ہے اور یوں ڈھیر سارے مریضوں کو چیک کرنے کے بعد ایک وارڈ کے گیلے فرش پر احتیاط سے قدم رکھتا ہوا وہ سوچنے لگتا ہے کہ کب اس کے پاس سرمایہ آ جائے تو اپنا ایک کلینک کھولے، بھلا اس چھوٹی سی تنخواہ سے کہاں گزارا ہوتا ہے۔ کام بہت زیادہ اور تنخواہ بہت کم. گھر کے معاشی مسائل کا سوچنے لگتا ہے اور اچانک اس کی نظر بیڈ نمبر آٹھ پر پڑتی ہے جہاں گزشتہ روز ایک معصوم سے بچے کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں تھیں، اس کی لڑکھڑاتی سانسیں تھم گئیں تھیں اور نرم چھوٹا سا ہاتھ سرد ہو کر رہ گیا تھا۔آج یہ بیڈ اسی بچے کی موت پر تھوڑی دیر کے لئے خالی ہوا تھا لیکن اب اس بیڈ پر اسی بچے کی ماں تھی جو صدمہ برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسی بیڈ پر بے ہوش پڑی تھی اور ڈاکٹروں نے حالت نازک دیکھتے ہوئے اسے بھی وارڈ کا ایک ممبر نامزد کر دیا تھا۔
پھر ڈیوٹیاں بدلنے لگتیں ہیں۔ صرف ڈاکٹرز اور اسٹاف کی ہی نہیںبلکہ ان تیمارداروں کی بھی جو مریضوں کے ساتھ ان کی دلجوئی اور حفاظت کی غرض سے رات گزارتے ہیں، کبھی لکڑی کی چھوٹی سی بنچ پر تھوڑا سا لیٹ کر تو کبھی مریض کے بیڈ پرسر رکھ کر تو کبھی بلا وجہ وارڈ کی سنسان گلیوں میں چہل پہل کر کے۔
باہرسے آنے والے پہلے ہشاش بشاش ہوتے ہیں۔ وہ باہر کی دنیا سے حوصلہ اور ہمت لاتے ہیں۔ لیکن ہسپتال کی درد بھری دنیا ان کا یہ بیلنس آہستہ آہستہ ختم کرنے لگتی ہے اور کچھ وقت کے بعد وہ بھی اس دنیاکا ایک حصہ لگنے لگتے ہیں۔ وہ عجب سی دنیا جو سرد بھی ہے اورسفاک بھی، جو اچھی بھی ہے اور بری بھی۔ جس میں زندگی اور موت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک دوسرے سے محو گفتگو رہتے ہیں، اُن دو مریضوں کی مانند، جن کے تیماردار سو جائیں!!
میں نے محسوس کیا کہ درد کے اس شہر میں کسی سے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں بھی بڑی غنیمت محسوس ہوتی ہیں۔ کسی کا دیکھ کر یوں مسکرا دینا بھی مسیحائی کی ایک قسم معلوم ہوتا ہے۔ کسی کو چلنے کا سہارا دیں تو وہ جی بھر کے دعاؤں کی پوٹلی حوالے کرد یتا ہے۔
پھر دن کی گردش جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے، درد کا احساس تیز ہوتاجاتا ہے، مریضوں کی درد سے بھری چیخ وپکار اور تیمارداروں کی منتیں کہ انہیں اس دنیا سے باہر لے جاؤ۔ کبھی بیزار ڈاکٹرز اور شفقت سے بے نیاز وارڈنز کا رویہ درد میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ درد کا بڑھتا ہوا دباؤ اور کمزور ہوتی ہوئی مسیحائی..!! مہنگی دوائیوں کے پرچے ہاتھ میں پکڑ کرپریشانی کے عالم میں باہر جاتے لوگ اور باہر سے اپنے پیاروں کو ملنے کے آنے والے رشتہ داروں کی بھیڑ.!!
پھر ملاقات کا وقت آ جاتا ہے اور ’’شہر بیمار‘‘ میں رش ہو جاتا ہے۔ ان کی باتیں اوردعائیں، ان کے مشورے اوردل جوئیاں!! مگر یہ وقت پرندے کی طرح کتنی جلدی اڑ جاتا ہے اور جب ملنے والے گھر جانے لگتے ہیں تو سفید چادر پر بے سدھ لیٹا مریض اداسی کے ساتھ سوچنے لگتا ہے کہ وہ گھر کب جائیں گے؟ میں سوچنے لگا کتنا مشکل ہوتا ہے ان ملنے والوں کے لئے اس بچے کو ہسپتال کے بیڈ پر چھوڑنا جو ضد کرتا ہے کہ ’’یہاں نہیں رہوں گا مجھے گھر جانا ہے ‘‘
پھر شام کے سائے اس ’’شہر درد ‘‘ پر منڈلانے لگتے ہیں اور بیماروں کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہوتے ہیں جنہوں نے کئی دنوں سے سورج کو نہیں دیکھا ہوتا، اک عجب سی گھٹن ان کے دل و دماغ میں چھا جاتی ہے۔ نہ چاہنے کے باوجود بھی ان کو یہاں رہنا پڑتا ہے۔ ان مریضوں میں سے جب کسی کو چھٹی کی نوید سنائی جاتی ہے تو وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا، اس کے چہرے پر خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اور کوئی اس وجہ سے بھی خوش ہوتا ہے کہ اس مریض کے جانے کے بعد ان کو اب کھڑکی والا بیڈ مل
 جائے گا وہ بیڈ جسکی کھڑکی سے بہاولپور کی چلتی پھرتی زندگی کی طرح دوڑتی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔
اور پھراپنی مٹھیوں میں کچھ خواب اور کچھ خواب آور گولیاں لیکر رات آتی ہے اور کسی کو کسی کی اور کسی کو کسی کی یاد آتی ہے، کسی کی پلکیں نم ہو جاتی ہیں اور کوئی مسکراتی آنکھوں سے وارڈ کی سفید دیوار پر اندھیرا چھاتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔
اس طرح دن کا درد رات کی سیاہی تلے دب جاتا ہے۔ سسکتا ہوا ماحول سونے لگتاہے اورا س دردکے شہر میں خاموشی سی چھا جاتی ہے۔ درد بھری اس چھوٹی سی دنیا پر اُبھرتا ہوا چاند دیکھو تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ کہہ رہا ہو.دراصل وہ کہنا چاہتا ہے کہ:
’’ زندگی درد کی بانہوں میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ درد زندگی کا وہ ساتھی ہے جو اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔ ایسا بالکل نہیں کہ درد کی سرحد صرٰف ہسپتالوں کے وارڈوں تک محدود ہے بلکہ درد تو ہر طرف بکھرا پڑا ہے۔ ہسپتالوں میں درد سمٹ جاتا ہے۔ وہاں لوگوں کو تھوڑا سا سکون دینا، انہیں آرام دینا، انہیں معمولی مدد فراہم کرنا بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ لوگ جن کے بازؤوں میں ابھی درد نے اپنا ہاتھ نہیں ڈالا وہ اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کریں جو ہسپتالوں میں جا کر تنہا ہو جاتے ہیں۔ درد سے لڑنا انسان کا مقدر ہے، مگراس کے لئے یہ لڑائی تنہا لڑنا بہت مشکل ہے۔ اسے سہارا چاہیے اس درد سے لڑنے کے لئے جو اس کے لئے زندگی کو بوجھ بنا دیتا ہے۔ اگر شہر بے درد کے باسی شہر درد کے باسیوں کی دلجوئی اور ہمت نہیں بڑھائیں گے تو کون یہ حق ادا کرے گا‘‘
چاند ایسی باتیں کرتا رہتا ہے شہر درد کو دیکھتے ہوئے۔ مگر چاند کی باتیں کون سنتا ہے؟
میں نے محسوس کیا ان چند دنوں میں کہ اگر ہم چاہیں تو شہر درد کے عارضی یا دائمی باسیوں کو خوشیاں دے سکتے ہیں، ان کے غمزدہ چہروں پر زندگی کی رونق بحال کر سکتے ہیں، ان کے ٹھنڈے ہوتے ہاتھوں کوپیار کا ایک بوسہ دے کر ان میں گرماہٹ پیدا کر سکتے ہیں۔ ہاں ہم کر سکتے ہیں اگر ہم چاہیں.!!
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔