بل فیسٹیول

تحریر : زبیر طیب
وہ بہت ہی خطرناک اور عجیب و غریب میلہ تصور کیا جاتا ہے، یہ میلہ ہر سال ’’بل فیسٹیول‘‘ کے نام سے اٹلی، روم اور فرانس میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں لوگ اپنے شہروں میں بپھرے ہوئے، خطرناک اور صحت مند ’’سانڈوں‘‘ کو سڑکوں پر کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر لوگ ایک سرخ کپڑا اس سانڈ کے سامنے لہراتے ہیں۔ایسا کرنے پر ’’سانڈ‘‘ ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے اور کپڑا لہرانے والے کے پیچھے بھاگتا ہے اور اسے گرانے اور ٹکر مارنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ باقی لوگ کھڑے یہ دیکھ کر ہنسنے لگتے ہیں اور اس تماشے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سیٹیاں بجاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔

ان ممالک میں ’’بل فیسٹیول‘‘ کے موقع پر سانڈوں کو آزاد چھوڑنے کی وجہ سے بلا مبالغہ سینکڑوں افراد ہر سال زخمی ہو جاتے ہیں اور درجنوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ ہر سال پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے اس ’’بل فیسٹیول ‘‘ کا انعقاد کرتے ہیں اور اسی طرح زخمی ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا ہم پاکستانی بھی یہی ’’میلہ‘‘ بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں، اسی ’’میلہ ‘‘ کی وجہ سے ہم زخمی بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں اور مرنے والوں کی بھی بڑی تعداد ہوتی ہے۔مذکورہ ممالک میں تو بل فیسٹیول میں ’’سانڈ‘‘سب کے سامنے کسی شخص کو سڑک پر اپنے سینگوں سے نشانہ بنا رہا ہوتا ہے اور اسے اپنے سینگوں کی مدد سے دور اچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ ادھر وطن عزیز میں ہم جن ’’سانڈوں‘‘ کو کھل کھیلنے کے لئے سڑکوں،چوراہوں اور بڑی بڑی عمارتوں میں چھوڑتے ہیں وہ کبھی تو سب کے سامنے وار کرتے ہیں لیکن اکثر وہ چھپ کر پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کی زندہ مثال قائم کرتے ہیں اور روح تک کو ادھیڑ ڈالتے ہیں۔ ’’بل فیسٹیول‘‘ اور ہمارے اس ’’میلہ‘‘ میں بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اس فیسٹیول کو ہر سال مناتے ہیں اور ہم پاکستانی اس ’’میلہ‘‘ کو ہر پانچ سال بعد مناتے ہیں۔غور کریں تو ان دونوں جگہوں میں’’کھیل ‘‘ایک ہی ہے، بس کھیلنے کے انداز مختلف ہیں۔دونوں جگہ میں ’’سانڈ‘‘ اپنی خصلت کی بنا پر ایک جیسے ہوتے ہیں بس ’’شکلوں اور ٹانگوں‘‘ میں ذرا فرق ہے۔ مزید فرق آپ خود ڈھونڈ سکتے ہیں۔

آج وطن عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاںجارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کچھ بھی ہو……. ہم نے ہی تو انہیں اس قابل بنایا اور آج جب ان کے پاس طاقت ہے انکے پاس ہتھیاربند جتھہ ہے ،حکم بجا لانے والے خدام ہیں، راگ رنگ کی محفلیں ہیں، جام ہیں، دل لبھانے کا سامان ہے، واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اور بغل بچے ہیں. تب طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔سپریم کورٹ جن افرادکوملکی دولت لوٹنے کامجرم ٹھہراتی ہے،حکومت انہی کو بلا کر مر کز میں وزارت عطاکردیتی ہے کہ کرلوجوکچھ کرناہے ہم تودھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کامظاہرہ کرتے رہیں گے۔

قیام پاکستان سے اب تک نہ تو ہم نے کچھ سیکھا اور نہ ہی ہماری قیادت نے۔ وہی ماضی کی غلطیاں، ماضی کے شورشرابے، تصادم، وہی قیادت جو کبھی ماضی میں باہم دست وگریبان رہے۔

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ہم نے ماضی میں جو غلطیاں کی تھیں۔ اب بھی وہی کررہے ہیں بلکہ بہتر ہوگا کہ کہا جائے کہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک غلطیاں. ہم ماضی میں زندہ رہنے والی قوم ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارنامے بڑے فخرسے سناتے ہیں لیکن ان سے سیکھتے کچھ بھی نہیں۔

ہماری حالت اس کنگال شخص کی سی ہے جو ماضی میں کافی مالدار ہوا کرتا تھا، جو اپنے ماضی کے بنک بیلنس، جائیداد اور عیاشیوں کے بارے میں دوسروں کو بتاتا پھرتا ہے۔ لیکن خود اپنا ماضی واپس لانے کی کوشش نہیں کرتا۔

ایک خاموشی ہے جو ٹوٹتی نہیں، زبان ہے کہ کچھ بولنے سے گھبراتی ہے، دماغ ہے کہ سوائے دوجمع دو ’’چارروٹیاں‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا، دل ہے کہ بس حالات پر کڑھتا ہی رہتا ہے، آنکھیں ہیں کہ بند ہیں کہ ہم سچ نہیں دیکھنا چاہتے۔ جسم ہے لیکن بے سدھ۔ قدم ہیں کہ کچھ کرنے سے پہلے ہی ڈگمگاجاتے ہیں۔ پریشانی، ملامت، غصہ، عدم برداشت، بے حسی اور نہ جانے کیا کیا ہم میں ہے۔

ذات پات، مسلک، صوبائی عصبیت، بے حسی سے نکلنے کو تیار نہیں، ہر شخص کا اپنا نعرہ ہے، ایک شخص دوسرے شخص سے خفا ہے، کسی پہ اعتبار نہیں، انتظار کررہے ہیں کہ کوئی اچھا رہنما ملے اور ہمیں اس حصار سے نکالے، لیکن اپنی رہنمائی نہیں کرتے، چوروں کو ہم اپنا رہبر بنائے بیٹھے ہیں۔ دشمنوں کو دوست بنائے بیٹھے ہیں۔ حالات پردل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں، حکومت پر تنقید کررہے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں، بس وہی نان ونفقہ، بنیادی ضروریات۔ آٹا، گھی، پٹرول، چینی، سبزیاں کچھ روپے مہنگی ہوجائیں تو بس میں سفر کرتے ہوئے حکومت کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی احتجاج نہیں بس لوگوں کو سنایا اور چپ اور دوسرے بھی آپ کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور آپ مطمئن ہو جاتے ہیں۔

ہم حکومت کو فری ہینڈ دے دیتے ہیں کہ جو مرضی آئے وہ کرے، بجلی بندکرنی ہے تو کرے، پٹرول، سی این جی، آٹا، گھی جو بھی آپ نے مہنگا کرنا ہے کرلیں۔ ہم صرف کڑھیں گے اور کچھ نہیں کریں گے۔کوئی اگر ہمارے محلہ میں چوری کرے تو مارمار کر ’’ادھ موہ‘‘ کردیتے ہیں اور تھانے کی سیر کروانے بھیج دیتے ہیں لیکن اپنے لئے ہم حکمران ہمیشہ چوروں کو ہی منتخب کرتے ہیں۔ ایک ہی شخص کو بار بار آزماتے ہیں کہ شاید اب یہ سیدھا ہوجائے لیکن ہم ہمیشہ کی طرح دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ہمارے منتخب کردہ نمائندوں نے ہمارا وقار، ہماری شان وشوکت سب مٹی میں ملادیا لیکن ہم نے اف تک نہیں کی۔ جیسے وہ بالکل درست فرمارہے ہوں۔

ہر شخص کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے، ہر شخص صوبائی عصبیت کا نعرہ لگارہا ہے، ہماری حب الوطنی اپنے علاقوں تک محدود ہوگئی ہے۔ ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے لیکن دوسروں کا حق ادا نہیں کرنا چاہتا۔ صوبائی عصبیت کے نعرے جاگیردار، بدعنوان سیاستدان اور سردار بلند کرتے ہیں اور ہم بلا سوچے سمجھے ان نعروں کا جواب دینا شروع کردیتے ہیں۔

اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ہم دیواریں اونچی کردیتے ہیں۔ دیواروں پر شیشہ لگادیتے ہیں تاکہ چوروں اور ڈاکوؤں سے محفوظ رہیں لیکن اپنے جذبات، اپنے ارمان، اپنی خودمختاری، اپنے وقار پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو اپنے اوپر مسلط کردیتے ہیں۔ وہ جب ائیرکنڈیشنڈ بنگلوں اور گاڑیوں میں گھوم رہے ہوں تو ہم اس وقت گرمی کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ وہ جب مرغن غذائیں کھارہے ہوں تو ہم بھوکے پیاسے سورہے ہوتے ہیں۔ وہ ایک’’ این آر او ‘‘سے دوبارہ نیک بن جاتے ہیں تو ہم ایک ناکردہ جرم کی سزا پارہے ہوتے ہیں۔ ہمارا احتساب وہ کررہے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں احتساب سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔

ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔ ہمیں ان سانڈوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے خود اپنی حالت بدلنے کے لئے سوچنا ہو گا۔ ورنہ نسلیں گزر جائیں گی اور ہماری زبوں حالی یونہی برقرار رہے گی ۔مختلف قسم کے مزید زرداریے، شریفے،اور سونامی خان جیسے بدبودار بھبکے ہماری روح تک کو زخمی کر کے چلتے بنیں گے اور ہم صرف خاموش تماشائی بنے اپنا حشر ہوتا دیکھتے رہیں گے۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔