اپنے گھونسلوں میں چھپے رہنا

تحریر: زبیر طیب
ایسا بھی ہوتا ہے اکثر کہ افراد ہی نہیں اقوام بھی خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ ٹی وی اور ویڈیو گیمز کے شائق امریکی ’’افغان جنگ‘‘ کو بھی ایک ویڈیو گیم ہی کی طرح سمجھے۔ ایک ایسا کھیل جسے بڑی سی سکرین کے پار بیٹھ کر محض بٹن دبانے سے کھیلا جا سکتا ہے۔آغاز میں برسائے جانے والے بموں پر تحریر تھا کہ بن لادن اور دنیا کی سب سے بیسٹ ﴿اچھی﴾ فوج.!! اور پھر آخر میں عقل ٹھکانے آ جانے کے بعد برستی گولیوں کی بارش میں معصوم بکری کی طرح ممیا کر کہا جا رہا ہے کہ ’’آئیے بات کر لیجئے‘‘۔ امریکی اس مغالطے میں رہے کہ ویڈیو گیم کی طرح یا تو مٹھی بھر طالبان ختم ہو جائیں گے اور اگر نہ بھی ختم ہوئے تو ایک روز ان کی ’’پرانی گولیاں ‘‘ ختم ہو جائیں گی۔ بس پھر اسی لمحے انہیں دبوچ لیا جائے گا۔

لیکن ایسا نہ ہوا.

کم و بیش گیارہ برس پر محیط اس جنگ نے دنیا بھر کے شیطانی اتحادیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور ایسی مار پڑی کہ اب نہ بھاگنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کچھ کہنے کے۔ اس’’ بیسٹ فوج‘‘ کو ایسا ناکارہ کر دیا کہ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے بے چارے ’’ اپاہج ‘‘ ہو گے۔

جب عقل پر پتھر پڑ جائیں تو سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔ واقعہ کیا تھا کہ دو عمارتیں گر گئیں جن کا کل تخمینہ چند بلین ڈالر نکلتا تھا۔ لیکن اس سب کے ازالے کے لیے آٹھ ٹریلین ڈالر جھونک دئے گئے ۔اس کے علاوہ اس شیطانی لشکر کا نقصان اپنی جگہ مسلّم ہے۔

امریکہ اور اس کے ہم نواؤں کی دانست میں طالبان شریر تھے اور اس شرارت کی سزا دینے کے لئے یہ سارے ’’ خوش فہمی کا شکار ‘‘ اپنے اپنے ملکوں سے اڑ کر افغانستان کی سرزمین پر وارد ہوئے اور پھر سزا دینا تو دور کی بات ان کی اپنی بد بختی کا آغاز ہو گیا۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا گیا، عراق افغانستان اور پاکستان تین محاذ کھل گئے۔فوجی امداد پر امداد ! پوری کی پوری معیشتیں تباہ حال کی گئیں۔ بے گناہوں کی لاشوں کے انبار لگا دیے گئے۔ اور خود بھی ایسا نقصان اٹھایا کہ انہوں کے کبھی خواب میں بھی اپنی ایسی درگت بنتے کبھی نہیں سوچا ہو گا۔

یہ سب اس لئے کہ محض دو عمارتوں ان کی کیوں گرا دی گئیں۔کہتے ہیں کہ سوداگر کے بندر نے منہ پر مکھی بیٹھی دیکھ کر خنجر سے ناک ہی جدا کر دی تھی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ امریکی صدر، پالیسی سازوں اور سوداگر کے بندر میں کس قدر تفاوت ہے؟

باقی معاملہ رہا طالبان کا وہ آج بھی ویسے ہی ہمت و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں جیسے جنگ کے پہلے دن ان کا عزم و حوصلہ جواں تھا۔ طالبان کے معاملے میں امریکی شدید غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ غالباً امریکیوں کا تصور یہ رہا ہوگا کہ ڈھاٹوں میں ملفوف کچھ باریش غاروں میں چھپے بیٹھے ہیں، کلسٹر بموں سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ نہ غاریں رہیں گے نہ طالبان۔ سو ابتدا میں یہی بم استعمال کیے گئے اور بے انتہا کیے گئے۔ان کا خیال تھا کہ چند ہزار طالبان کلسٹر بموں کا جب شکار ہوں گے تو باقی سب ہاتھ جوڑ کر ہمیں سلوٹ ماریں گے اور ہم جیسا چاہیں گے ان کے ساتھ سلوک کریں گے۔

اور یہیں پر ان امریکیوں سے بہت بڑی غلطی ہوگئی! امریکی طالبان کو ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں پائے اسے وہ عام دشمن سمجھے جو ذرا سے دباؤ کے بعد اپنا سب کچھ ہار بیٹھتا ہے وہ بھول گئے کہ طالب ہے کون؟ طالب کسے کہا جاتا ہے؟ طالبان وہ مدرسوں کے نوجوان ہیں جو دین کی بقائ کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اور بے شک انہوں نے یہی کیا۔ انہوں نے اپنا گھر بار چھوڑا، پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔ امریکی غاصب فوجیوں کو ’’بیسٹ‘‘ بھلا کر چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔ ہر حالات میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اپنے جسموں کے ٹکڑے کروا کر دیے لیکن ان امریکیوں کو بتا دئے گئے کہ تمہاری طاقت، تمہارا غرور، تمہارے ٹیکنالوجی، تمہاری معیشت اور یہاں تک تمہارا چین و سکون ہمارے پاؤں کی ٹھوکر پر ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ حقیقت انسان کی اپنی نگاہ سے بھی اوجھل ہو جاتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ یہی ہوا۔ طالبان کو وحشی اجڈ جاہل غیر مہذب بتاتے بتاتے یہ نام نہاد مہذب امریکہ وحشی اور ’’کتے پن‘‘ پر اتر آیا۔ مسلمانوں کو اپنی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر کمر نہ لگا سکا تو ان کی مذہبی اور اسلامی تشخص پر پاگلوں کی طرح حملہ آور ہو گیا۔ کبھی جیلوں میں بند قیدیوں پر خوفناک غیر انسانی تشدد کر کے اپنی بھڑاس نکالی تو کبھی قران مجید کو نذر آتش کر کے فدائیں کے ہاتھوں اپنی بربادی کی مہر لگائی۔

اور پھر بوکھلاہٹ کا وہ مظاہرہ بھی سامنے آیا کہ امریکی وزیر خارجہ نے فرمایا طالبان کا اثرو رسوخ ختم ہو چکا ہے تاہم ان سے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ صاحب اثرورسوخ ختم ہو چکا ہوتا جیسا کہ آپ کا شروع میں خیال تھا تو آپ بات چیت پر آتے ہی کیوں آپ تو چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر مذاکرات کے شوقین ہیں۔اب حالات یہ ہیں کہ امریکی خسارہ نو سو ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں، سٹاک مارکیٹ بری طرح سات سو پوائنٹ تک سے بھی نیچے جا گری، سات سو ارب ڈالر کی ہنگامی امداد بھی کچھ کام نہ آئی اگلے روز ہی مارکیٹیں پھر منہ کے بل جا گریں، یہ ہے طالبان کی وہ طاقت جسے یہ ’’خوش فہم‘‘ قوم سمجھ نہ پائی۔

حالیہ گرمیوں کے موسم کا آغاز ہوتے ہی افغانستان کے ان ’’اپاہج‘‘ فوجیوں کے کلیجے منہ کو آ گئے جب ہر طرف سے ان پر تابڑ توڑ حملے کیے جانے لگے۔ اور جب امریکی صدر ان فوجیوں کی ہمت بندھانے اور افغانستان میں اپنی فوج کے قیام کی مزید توسیع کے لئے آئے تو ان طالبوں نے امریکی صدر کی قیام کی جگہ پر ایسا خوفناک حملہ کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سیکورٹی رکھنے والا صدر اگر وہاں سے چند گھنٹے پہلے نکل نہ جاتا تو اس کی کالی پینٹ مکمل ’’ پیلی ‘‘ ہو چکی ہوتی۔

یہی وجہ ہے کہ آج یہ’’ بیسٹ‘‘ اپنے ’’نیسٹ﴿گھونسلے﴾ ‘‘ میں چھپے بیٹھے ہیں ۔

اور ادھران کی قوم اور وزیر دفاع کا خیال ہے کہ طالبان کا اثر روسوخ ختم ہو چکا ہے۔ اور اب طالبان صرف ایک چھوٹے سے حصے پر محدود ہیں اور جلد ختم ہونے والے ہیں۔

واقعی افراد ہی نہیں اقوام بھی خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

لیکن ان فوجیوں سے گزارش ہے کہ اپنی قوم کی خوش فہمیوں پر نازاں ہو کر باہر نہ نکلنا، اپنے گھونسلوں میں چھپے رہنا ورنہ’’ گھنی داڑھی‘‘ ’’سیاہ لمبی حسین زلفوں ‘‘ اورچمکتے چہروں والے تمہاری تاک میں ہیں۔ اور دنیا جان گئی ہے یہ تم سے بہت’’ بیسٹ‘‘ ہیں۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔