’’ضرورت‘‘

تحریر: زبیر طیب
اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو جدا جدا فطرت سے نوازا ہے۔کسی کا حافظہ غضب کا ہے تو کسی کے پاس برداشت کی اعلٰی قوت۔کسی کو ظلم سہنے کی قوت دی ہے تو کوئی جبر کے خلاف طاقت رکھتاہے۔کسی کے پاس قلم ہے تو کسی کی زبان کو سحر بیانی کا ملکہ عطائ کیاگیا ہے۔کوئی رہبر ہے تو کوئی باشعور عوامی فرد۔کوئی امام ہے اور کوئی مقتدی۔کوئی سائنسدان ہے تو کوئی عالم دین ‘کسی کے پاس سنار کا ہنر ہے تو کوئی لوہے کی کاٹ کا ماہر۔کسی کو تخت عطائ کرتا ہے تو کسی کو گداگری گھٹی میں ملی ہے۔کسی کو طبیب بنایا ہے تو کسی کو مریض۔پھر کبھی طبیب کو مریض بناکر اپنی اقتدار اعلی کی قوت کا احساس دلاتا ہے۔واصف علی واصف کہتے ہیں ’’دل کا طبیب اکثر دل کے عارضے سے جان دیتا ہے‘‘۔الغرض کوئی حاکم ہے کوئی محکوم ۔ لیکن سب اسی کی مخلوق ہے اور ہر حال میں اسی کے رحم و کرم پر ہے۔
رہ گئی میری بات تو مجھے میرے پیارے رب نے بچپن ہی سے سوچنے کی صلاحیت عطائ کی۔ میں.میرا کمرہ. اور اس میںکہیں گم میرا سراپا سوچ میں ڈوبا ہوا وجود. کسی جواب کی منتظر آنکھیں، جو کبھی ایک سمت میں ٹکٹکی باندھے رکھتی ہیں اور کبھی مختلف سمتوں کو ٹٹولنے لگتی ہیں۔ گویا کہ ہوا سے کوئی نمودار ہوگا اور میرے ہر سوا ل کا جواب دے جائیگا۔ کاش. سوچ کی کوئی لگام کیوں نہیں ہوتی؟ وہ کیوں یوں بیباک دوڑے چلی جاتی ہے؟ لیجئے! یہ تو ایک اور سوال پیدا ہو گیا۔۔ چلئے چھوڑ ئیے ان سوالوں کو. کیوں نہ کسی جواب کو زیرگفتگو لایا جائے؟ ایسا جواب جو سراسر میری خود سر سوچ کا نتیجہ ہے۔
میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ وہ کون سا ایک ایسا عامل ہے جوبنیادی طور پر ہر گناہ کے مرتکب ہونے کا باعث بنتا ہے۔ پھر چاہے وہ گناہِ صغیرہ ہو یا گناہِ کبیرہ۔ چھوٹا سا جھوٹ ہو یا بڑے پیمانے کی بد عملی۔ پھر ایک لحظہ ایسا آیا جب مجھے اِسکا جواب مل ہی گیا جسکو بیان کرنے کیلئے ایک لفظ ہی کافی ہے. ’’حرص‘‘۔ اس جہانِ فانی میں ہر کوئی حرص کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ کسی کو دولت کی حرص ہے تو کسی کو شہرتِ عام کی۔ کسی کو محبت کی حرص ہے تو کسی کو بقائے دوام کی۔
حقیقت بس یہ ہے کہ ہم نے اسکو ہر صورتحال کے مطابق مختلف نام دئیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں میں نے حرص کیلئے استعمال کیا جانے والا ایک لفظ دریافت کیا۔ ’’ضرورت‘‘۔ جی ہاں! میں نے خود کو اور اپنے گرد لوگوں کو ضرورت کے نام پر اپنی لالچ و طمع کو مطمئن کرتے پایا۔
اس جدید زمانے میں ہماری ضرورتیں کیوں د ن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں؟ عمرخضر کی طرح ان کا کوئی اختتام کیوں نہیں؟ پہلے لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں اور جب وہ ملتی ہے تو بڑے بڑے ریستورانوں میں جانے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کیا قناعت نام کی چیز اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے؟ ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہمیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہیں تو ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ دوڑ میں شامل ہونے کا موقع دیں۔ انکو جنہیں حقیقی معنوں میں ضرورت درپیش ہے اور وہ با صلاحیت ہونے کے باوجود مواقع سے محروم ہیں۔ ہم کو کیوں احساس نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ دوسروں کو روند کر دولت سمیٹتے چلے جائیں اور پھر اْس میں سے ضرورت مندوں کو کچھ خیرات دے کر خود کو سخی ثابت کریں۔
کاش کہ ہر ’’شاہ دل‘‘ امیر خیرات دینے کی بجائے خیرات مانگنے کی وجہ ختم کرنے کی کوشش کرتا۔ اِسطرح دو طرفہ لالچ میں کچھ تو کمی واقع ہوتی۔ مگر یہاں تو ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرداں ہے۔ افسوس صد افسوس! میں مانتاہوں کہ اس دنیا میں ہر کسی کو اپنی اہلیت کے مطابق سب کچھ پانے اور ترقی کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اِس کی کوئی تو حد متعین ہونی چاہئیے؟ یا پھر یہ شعر ہی حتمی حقیقت ہے کہ:
انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں چاہئیے دو گز کفن کے بعد
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر ہم اپنے دلوں کی زمین سے حرص کی جڑیں کاٹ پھینکیں تو ہمارے اضطراب ختم ہو جائیں اور اِس بے قرار دل میں سکون و اطمینان چھا جائے؟
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔