میں اکثر سوچتا ہوں

          تحریر: زبیر طیب
وہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی بسر کر رہا تھا۔سوکھی روٹی دن بھر کی مشقت کے بعد اسے اور اسکے گھر والوں کو نصیب ہوتی تھی۔وہ اپنے گھر میں صرف بقدر ضرورت بجلی کا محدود استعمال کرتا تھا۔
اتوار کا دن اس کی مشقت بھری زندگی کا آخری دن ثابت ہوا ۔جب اس نے بجلی کا بل دیکھا۔مستقبل کے خوفناک تصورات نے اسے اسی وقت موت کی وادی میں دھکیل دیا۔بجلی کے ایک بل نے پورے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا۔میں اکثر سوچتا ہوں! یہ کون سی دنیا ہے جو اس خوشحال بستی میں سسکیاں لیتی ہے؟پر ہجوم ہوٹلوں کے بغل میں کھڑی شاندار گاڑیوں اور ان کی میزوں کے خالی ہونے کا انتظار کرتی اونچی مخلوق سے ذرا پرے وہ تاریک سائے کن کے ہیں۔جو پلیٹوں میں چھوڑی ہڈیوں پر ماس تلاش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں؟

عالیشان اور برقی قمقموں سے سجی شاہراہوں،اخباری نمائندوں اور کیمروں کے سامنے تالیوں کی گونج میں ہر روز افتتاح ہوتے کسی نئے پروجیکٹ سے ذرا پرے جھگیوں کے درمیان چھوٹی پلاسٹک کی بوتلیں،ڈبے اورپرانے گھڑے سروں پر اٹھائے پانی کھلنے کا انتظار کرتی مخلوق کون ہے؟

جا بجا کھلے ہوئے مہنگے تعلیمی اداروں کے ’’اعلٰی تعلیم‘‘ یافتہ وزیر زادوں کی سگنل پہ رکتی گاڑیوں کو صاف کرتے یہ بچے کون ہیں؟

کیا یہ سب بھی انسان ہیں یا ہم نے انہیں انسانوں کی صف سے باہر کر دیا ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں! اس ملک میں جتنی تعداد میں نئی گاڑیاں وجود میں آتی ہیں، اتنے ہی زیادہ ان گاڑیوں کے گرد جمع ہونے والے بھکاری بھی وجود میں آ جاتے ہیں۔اس ملک میں جتنا سخت احتساب ہونے لگتا ہے، اتنا ہی رشوت کے ریٹ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔اس ملک میں صحت کے لیے جتنا زیادہ بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور جتنے زیادہ ہسپتالوں کی تعداد بڑھتی ہے،اتنے ہی ہسپتالوں کے برآمدوں میں ایڑیاں رگڑتے، دم توڑتے مریض نظر آتے ہیں۔

میں اکثر سوچتا ہوں! اس ملک کی قیادت معاشی ترقی کا ذکر کرتے نہیں تھکتی۔لیکن ہمیں میلے کچیلے،پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس گندگی کے ڈھیر میں رزق تلاش کرتے بھوک سے نڈھال انسان اکثر جگہوں پر کیوں نظر آتے ہیں؟

میں اکثر سوچنے لگتا ہوں کہ نہ جانے کتنے ہی چراغ اس مملکت خداداد کے قائدین کی طرف سے ہر روز روشن مستقبل کی پیشینگوئیوں سے مایوس ہو کر بجھ گئے۔ہر طلوع ہوتا سورج انسانوں کو جانیں دیتا دیکھتا رہا۔ان کی چیخیں ہمارے قائدین کی آسائشوں میں کبھی دخل نہ ڈال سکیں۔ان کی آہیں کبھی لگژری گاڑیوں کے بند شیشوں کو عبور نہ کر سکیں۔ان کے آنسو کبھی کسی ایوان کا موضوع بحث نہ بن سکے۔

میں اکثر سوچتا ہوں! غموں اور دکھوں کے مارے،بہت ناکام،بہت دشوار بہت بھاری زندگی کے حامل یہ لوگ ایک دن اپنے ہی وزن تلے کچلے جاتے ہیں ۔ کوئی اپنے آپ کو راکھ بنا دیتا ہے۔کوئی کسی بینک کے سامنے دو دن سے لگی قطار میں لگ کر اپنی جان ہار دیتا ہے۔لیکن نہ تو کسی کے چہرے پر کوئی ملال آتا ہے ، نہ کسی تقریب کا رنگ پھیکا پڑتا ہے۔اور نہ کوئی معاشی ترقی کے بلند وبالا دعوے کرتے ایک لمحے کو ہچکچاتا ہے۔دیہات کے لوگ اس کیکر کی بھی حفاظت کرتے ہیں، جو ان کو مسواک دیتا ہے۔لیکن ہمارے وی آئی پی حضرات کو سڑکوں کے کنارے مرنے والے ان انسانوں کا خیال نہیں آتا۔جن سے ووٹ کی بھیک مانگ کر یہ لوگ اونچے عہدوں پر پہنچتے ہیں۔

ایک ہی جہاں میں دو دنیاؤں کا نظارہ اکثر و بیشتر دیکھ کر میں سوچنے لگتا ہوں کہ ایک ہی شاہراہ پر کسی وی آئی پی کی گاڑی کے ساتھ جاں بلب مریض کو لیے ایمبولینس کیوں نہیں گزر سکتی ؟ کسی وزیر کی مرسیڈیز گاڑی کے آس پاس کوئی رکشہ یا خاندان بھر افراد کے وزن سے کانپتا موٹر سائیکل گزرے تو صاحب بہادر کو ناگوار کیو ں گزرتا ہے؟

میں سوچنے لگا کہ اگر یہ وی آئی پیز صرف ایک دن کے لیے اپنے بنگلوں کے ائیر کنڈیشنز کا سوئچ آف کر دیں۔اپنی بڑی بڑی گاڑیاں گیراج میں کھڑی کر دیں ۔ منرل واٹر کو ہاتھ تک نہ لگائیں۔جاپانی مشینوں پر بنے امپورٹڈ کاٹن کے سوٹ کو ایک جانب رکھ دیں۔فرانس کی خوشبو کو ذرا ایک طرف رکھ دیں۔اٹلی کے بنے جوتوں کو شو کیس میں ہی سجا رہنے دیں۔اور بغیر سیکورٹی کے دستے اور پروٹوکول گاڑیوں کے اس کچے مکان تک کا سفر کریں جس شخص کو بجلی کا بل کھا گیا۔کھال میں اترتی گرمی،وجود میں اڑتی حبس اور جسم سے جدا ہوتی زندگی کے درمیان کھڑے ہو کر اسکی بیوہ سے اس ناگہانی موت کا سبب پوچھیں۔پھر وہ جو جواب دے ، اسے من و عن سب کے سامنے بیان کر دیں۔یقینا ایسی ہمت کوئی نہیں کر پائے گا۔

وطن عزیز کی اس ناگفتہ بہ حالت اور وی آئی پیز کے رویوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ دفعتاً نظر ایک خبر پر پڑی جسمیں مزید نئے وی آئی پیز کی آمد کا ذکر تھا۔جہازی سائز کابینہ میں ابھی تک بھرتیاں جاری ہیں۔چار نئی وزارتوں پر چار نئے وزیر مقرر کر دئیے گئے۔ایک وزیر کا صرف ماہانہ خرچ پانچ کروڑ تک ہے۔حکومت نے لسی کی طرح وزارتوں میں مدہانی ڈال کر انہیں مزید پتلا کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ انتہائی حیران کن ہے۔ملک میں پہلے ہی لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ چار نئی وزارتوں کا مطلب ہے چار نئے اداروں کی تباہی،امیروں کی امیری میں اور غریبوں کی غربت میں مزید اضافہ،ملکی بچے کھچے خزانے کی مزید صفائی ، سڑکوں پر مزید پروٹوکول گاڑیوں کی آمدورفت کے سوا اور کچھ نہیں۔پاکستان وہ واحد ملک ہے۔ جہاں اتنے بالواسطہ اور بلا واسطہ وی آئی پیز ہیں جن کا شمار ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔اور ابھی نہ جانے کتنے وی آئی پیز اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔سمجھ نہیں آتا وطن عزیز کی اس قسم کی خوشحالی پر مسرت کا اظہار کیا جائے یا آنسو بہائیں جائیں۔

<<< پچھلا صفحہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔