June 2012

’’ ظالم ‘‘

تازہ نشتر قلم....زبیر طیب

پاکستان میں یہ کیسے ہوگیا کہ نہ قانون رہا نہ قانون کی بالا دستی ، یہ کیسے ہوگیا کہ کرپٹ ترین حکمران ہم پر مسلط ہوگئے ، یہ کیسے ہوگیا کہ کوئی کسی کو گالی نکالتا ہے تو اسے دکھ نہیں ہوتا ؟ کوئی کسی کو جان سے مار دیتا ہے تو دندنا تا پھر تا ہے ؟ جو جتنا بڑا مجرم وہ اتنا بڑا آدمی. آرام و سکون کیسے اور کیوں چھن گیا ؟بے حسی نے انسانیت کو کیسے زچ کر دیا؟ منافقت اوڑھنا بچھونا کیسے بن گئی ؟کرپشن کا راج کیسے چاروں طرف اندھیرے کی طرح پھیل گیا؟ یہ سب کیوں ہوگیا یہ سب کیسے ہوگیا. ؟؟آئیے ساتھ مل کر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

مزید پڑھیے

کس ماں کا دودھ پیا ہے؟

تحریر : حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو غلبہ عطاءفرمائے…. ظالم یہودیوں کی نظر (نعوذباللہ)…. مدینہ منورہ پر ہے…. یہودیوں کے طیارے بمباری کر رہے ہیں…. ان کے ٹینک آگ اُگل رہے ہیں…. اور فلسطین ولبنان کے مظلوم مسلمان…. بمباری سے گرنے والی عمارتوں کے نیچے بے بسی کی آخری سانس لے رہے ہیں…. یہودی، انبیاءعلیہم السلام کے قاتل…. یہودی سونے کے بچھڑے کے پجاری…. یہودی بندروں اور خنزیروں کی اولاد ….

مزید پڑھیے


صرف ایک دن۔۔۔۔۔؟؟

تازہ نشتر قلم : زبیر طیب
سخت گرمی کا دن تھا۔ سورج جیسے آگ برسا رہا تھا۔ میں شہر کے ایک بس سٹینڈ پر کھڑا گاؤں جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ دھوپ اتنی شدید تھی کہ جسم کو جھلسا رہی تھی اور پسینہ بہتا ہی چلا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے اردگرد نگاہ دوڑائی اور لوگوں کو دیکھنے لگا۔ہر کوئی اپنے کام میں مگن تھا۔

مزید پڑھیے

قصہ کہانی کالم

تحریر: زبیر طیب
خبر پڑھتے ہی ایک قصہ یاد آ گیا۔خدا جانے کیوں ؟ مگر خیر پہلے قصہ سن لیجیے، پھر خبر۔قصہ پہلے کا پڑھا ہوا ہو،تو پھر بھی پڑھ لیجیے۔کیوں کہ خبر بھی کون سی ایسی ہے جو پہلے کی پڑھی ہوئی نہ ہو۔
ایک سردار جی ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔سفر بڑے مزے سے کٹ رہا تھا۔یکایک گاڑی ایک اسٹیشن پر جھٹکے سے رک گئی۔

مزید پڑھیے

تم کب آؤ گے.؟؟

تحریر: زبیر طیب
لاکھوں کروڑوں لوگ ایک آس کی پیاس لیے بے چینی سے تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے ہوائی اڈے سے دارالسلطنت تک ایک لمبی قطار بنا رکھی ہے کہ تمہارا فقیدالمثال استقبال کرسکیں۔ نوجوان سب سے آگے اور مستعد ہیں، بزرگ بھی تمہاری راہ تک رہے ہیں اور بچوں کا بھی ایک جم غفیر ہے۔

مزید پڑھیے

’’احتسابی وائرس‘‘

تحریر: زبیر طیب
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب طاقت کے بے محابا استعمال اور برہنہ بربریت ہی کو دستور زندگی بنا لیا جائے اور انسانی حقوق کی گن گانے والی مہذب دنیا انہی کو اصول و ضوابط قرار دے ڈالے ،تو پھر درندگی کو لگام دینا ممکن نہیں رہتا۔مہذب جمہوریت پسند دنیا کا انصاف ،معرکے پر معرکے سر کرتا،انسانی بستیوں اور راہ گیروں کے قافلوں،مدرسوں،خوراک کے گوداموں،نمازیوں سے بھری مساجد،قلعہ جنگی کے تہہ خانوں،تورا بورا کے غاروں،مزار شریف کے بازاروں سے ہوتا ہوا اب پاکستان کے فوجی ٹھکانوں تک درندگی کی مثالیں رقم کرتا آن پہنچا ہے۔

مزید پڑھیے

بکرے کی کہانی

تحریر : زبیر طیب
میں ایک صاف ستھرے گائوں میں رہتا تھا۔ میرا مالک بہت اچھا انسان تھا۔ وہ مجھ پر زیادہ سختی نہیں کرتا تھا۔ اسے مجھ سے بہت پیار تھا۔ میں چھوٹا سا تھا جب میرے مالک نے میری دیکھ بھال شروع کی، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا، مجھے وقت پر کھانا دیتا اور کبھی بلاوجہ مجھے نہیں ڈانتا تھا۔

مزید پڑھیے

مان جائیے ورنہ

تحریر: زبیر طیب...خاص برائے’’ پکار‘‘ ﴿ جامعہ عثمانیہ لاہور﴾
سڑک پر گاڑی کو غلط لائن پر چلا کر دیکھیں۔ جہاز کو ہوا میں کسی فضائی قانون سے آزاد اڑائیں، قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ حادثہ ہی ہو گا۔ دفتر کے اوقات میں سو جائیں یا پھر سونے کے اوقات میں دفتر پہنچ جائیں، دونوں صورتوں میں نقصان ہی ہو گا۔ سب اس بات کو سمجھتے ھیں اور اسی لیے ہر شعبے کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن فطرت کے قوانین تمام دوسرے قانونوں سے اٹل ہیں۔

مزید پڑھیے

عوام سے خواص میں داخل ہونا آسان نہیں

تحریر: ام زبیر طیب
ہمارے گھر کے اندر صحن کے ساتھ ملحقہ جگہ پر کاٹھ کباڑ بہت زیادہ مقدار میں موجود تھا ۔جو گھر کی زینت پر کافی کاری ضرب لگاتا تھا۔ہم نے کئی بار سوچا کہ اس کاٹھ کباڑ کو کہیں ٹھکانے لگا کر یہاں کوئی فائدہ مند چیز بنائی جائے تاکہ فائدہ بھی ہو اور اس گندگی سے جان بھی چھوٹے۔

مزید پڑھیے

درد سے بھری ایک چھوٹی سی دنیا


 تحریر : زبیر طیب
چند روز پہلے مجھے اپنے ایک عزیز کی تیمارداری کے لئے ہسپتال کے اندر کی دنیا کو تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہسپتال گیا تو محسوس ہوا کہ جیسے ’’ سارا شہردرد میں ہے ‘‘
بہاولپور کا ’’بی وی ایچ ‘‘ ہسپتال بھی ’’درد کا ایک شہر‘‘ ہے۔

مزید پڑھیے

’’میں بھیک نہیں لیتا‘‘

تحریر : زبیر طیب
 
وہ ایک کہر بھری شام تھی۔جب میں لاہور شہر کی ایک مشہور شاہراہ پر ٹریفک کے ہجوم میں پھنس کر رہ گیا تھا۔گاڑیوں کا ایک میلوں لمبا اژدہا ہمارے آگے کھڑا تھا۔اور اسکے حرکت کرنے کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔

مزید پڑھیے

’’ضرورت‘‘

تحریر: زبیر طیب
اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو جدا جدا فطرت سے نوازا ہے۔کسی کا حافظہ غضب کا ہے تو کسی کے پاس برداشت کی اعلٰی قوت۔کسی کو ظلم سہنے کی قوت دی ہے تو کوئی جبر کے خلاف طاقت رکھتاہے۔کسی کے پاس قلم ہے تو کسی کی زبان کو سحر بیانی کا ملکہ عطائ کیاگیا ہے۔کوئی رہبر ہے تو کوئی باشعور عوامی فرد۔کوئی امام ہے اور کوئی مقتدی۔کوئی سائنسدان ہے تو کوئی عالم دین

مزید پڑھیے

واویلا

تحریر : زبیر طیب
۹ اپریل کو دوسری ’’ قومی انرجی کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا، امپورٹڈ’’ اے سیوں‘‘ کی ٹھنڈی ہواؤں کے بیچ وبیچ، منرل واٹر کی بوتلیں پی پی کر اس کانفرنس میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ خلوص دل اور نیک نیتی سے بجلی کی بچت کو یقینی بنائیں تاکہ سب کو زیادہ سے زیادہ بجلی ملے۔

مزید پڑھیے

بل فیسٹیول

تحریر : زبیر طیب
وہ بہت ہی خطرناک اور عجیب و غریب میلہ تصور کیا جاتا ہے، یہ میلہ ہر سال ’’بل فیسٹیول‘‘ کے نام سے اٹلی، روم اور فرانس میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں لوگ اپنے شہروں میں بپھرے ہوئے، خطرناک اور صحت مند ’’سانڈوں‘‘ کو سڑکوں پر کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر لوگ ایک سرخ کپڑا اس سانڈ کے سامنے لہراتے ہیں۔

مزید پڑھیے

تعارف حضرت امیر المجاہدین

تحریر : طلحہ السیف
الامام المجاہد فی سبیل اللہ، الداعیۃ الکبریٰ، امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے بلاد میں بلکہ پورے عالَم میں دعوت جہاد کو عام کرنے اور میدان جہاد میں مشرکین و اہل صلیب کو رسوا کرنے کے لئے منتخب فرمایا اور اس میدان میں سبقت عطا فرمائی ہے۔

مزید پڑھیے

آواز

تحریر : زبیر طیب
تمہیں اللہ، رسو ل کا واسطہ میرے بیٹے کو مت مارنا، تمہیں جو چاہیے وہ لے لو، میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اسے کچھ مت کہنا.!!

ممتا کے درد سے چور ایک ماں اغوا کا روں سے اپنے بیٹے کے لیے زندگی کی بھیک مانگتی، رندھی ہوئی آواز میں التجائیں اورفریادیں کرتی، اپنے بیٹے کی جان بخشی کے لیے اپنی ساری متاع دینے کوتیار ہے، رو رو کر وہ انھیں کہتی ہے :’’میرے بیٹے کو چھوڑ دو . !! ‘‘

مزید پڑھیے

کچھ یادیں اندلس کی

تحریر : زبیر طیب
اندلس میں اسلام کا تاریخی دور تقریبا ً آٹھ سو سال پر پھیلا ہوا ہے۔ان آٹھ صدیوں میں مسلمانوں کو زندگی اور تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔انہوں نے ایک اجنبی سرزمین پر مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والوں،مختلف زبانیں بولنے والوں،اور مختلف مزاہب کے ماننے والوں کو ایک ریاست کے سائے میں متحد و منظم کیا۔

مزید پڑھیے

مشکل میں کون؟

تحریر : زبیر طیب
خبر ہے کہ افغانستان میں قیدیوں پر امریکی افواج کے نئے مظالم کا انکشاف۔ قیدیوں کو سخت سردی میں رکھنے،ذلت آمیز تلاشی لینے اور روشنی سے محرو م رکھ کر نیٹو سپلائی کی بندش کا بدلہ ان مظلوم قیدیوں سے لیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیے

کلمہ حق کی پاداش میں

’’آپ اس بارے میں کیافتوٰی دیں گے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ وہ کسی شخص کو قتل کر دے حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ جس کے قتل کا حکم امیر المومنین نے دیا ہے،مجرم ہے یا نہیں؟‘‘خلیفہ منصورکے مصاحب خاص ابو العباس طوسی نے بھرے دربار میں امام ابو حنیفہ سے سوال کیا۔آج اس نے ارادہ کیا کہ ابو حنیفہ سے کوئی ایسی بات کروائے کہ خلیفہ منصور انہیں سزا دینے کے درپے ہو جائے۔اس مقصد کی خاطر اس نے امام ابو حنیفہ کو پھانسنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیے

ایک چھوٹا سا انسان

تحریر: زبیر طیب
ہر صبح جب ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے اور بڑے لوگوں کی بستی میں گہرا سناٹا چھایا ہوا ہوتا ہے۔وہ گلابی چہرے والا ننھا منھا بچہ کندھے پر کچرے کا تھیلا لٹکائے یہاں سے گزرتا ہے اور بڑے لوگوں کے پھینکے ہوئے ’’ریپر‘‘ ’’برگرز کے خالی ڈبے ‘‘اورفاسٹ فوڈ کے ڈھیروں شاپر یہاں پر اسے روز ملتے ہیں۔وہ جب بھی یہاں آتا ہے تو اس کی نظریں اردگرد پڑے کاغذ ، ردی، پلاسٹک اور تاروں کی تلاش میں رہتی ہیں اور قدم تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔وہ اسی طرح روز ادھر ادھر دیکھتا ہوا چلتا جاتا ہے،یہاں تک کہ نگاہوں سے غائب ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھیے

آج نہیں تو کبھی نہیں

تحریر : زبیر طیب
سب کچھ اس کے سامنے ہوا تھا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔اس کے سامنے قرآن مجید کو جلا دیا گیا تھا اور وہ بندوق ہاتھ میں پکڑے ایک نمک خوار کی طرح بس دیکھتا ہی رہ گیا۔اس کے ذہن میں اک طوفان برپا تھا۔اسکے دل کی حالت قابل رحم ہو گئی تھی۔سانس جیسے رک رک کر آ رہا تھا۔آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی اس کے رخسار کو بھگو رہی تھی۔

مزید پڑھیے

انجام سے بے خبر لوگ

تحریر : زبیر طیب
وہ کمرہ عدالت سے باہر آ رہا تھا،اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہیں تھی،اس کے حق میں لوگ نعرے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے،وہ فخر سے اپنے اردگرد نگاہ ڈالتا،پھولوں کو روندتا شاندار لینڈ کروزر پر بیٹھ کرچلا گیا،ایک اور دل دہلا دینے والا کرپشن کا باب بند ہو گیا۔

مزید پڑھیے

ایک کہانی ایک سبق

تحریر: زبیر طیب
وطن عزیز میں کرپشن کی روح فرسا کہانیاں اقتدار کے بڑے ایوانوں سے گلی کوچوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ جس کی ذمہ داری قومی وسائل کو بچانا ہے وہی لوٹ مار میں ملوث نظر آتا ہے۔مالی بے ضابطگیوں کے حیرت انگیز مناظر سامنے آتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

مزید پڑھیے

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>