’’احتسابی وائرس‘‘

تحریر: زبیر طیب
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب طاقت کے بے محابا استعمال اور برہنہ بربریت ہی کو دستور زندگی بنا لیا جائے اور انسانی حقوق کی گن گانے والی مہذب دنیا انہی کو اصول و ضوابط قرار دے ڈالے ،تو پھر درندگی کو لگام دینا ممکن نہیں رہتا۔مہذب جمہوریت پسند دنیا کا انصاف ،معرکے پر معرکے سر کرتا،انسانی بستیوں اور راہ گیروں کے قافلوں،مدرسوں،خوراک کے گوداموں،نمازیوں سے بھری مساجد،قلعہ جنگی کے تہہ خانوں،تورا بورا کے غاروں،مزار شریف کے بازاروں سے ہوتا ہوا اب پاکستان کے فوجی ٹھکانوں تک درندگی کی مثالیں رقم کرتا آن پہنچا ہے۔
خبر ہے کہ پاکستان نے اپنے فوجیوں پر امریکہ کی جانب سے کھلی جارحیت پر شدید احتجاج کر کے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ نے شمسی ائیر بیس سے بوریا بستر گول کر لیا،ڈرون حملے رک گئے،اور امریکی فوجیوںکا ائیر بیس سے انخلائ شروع ہو چکا ہے۔
یہ خبر جہاں حیران کن بھی ہے وہاں حوصلہ افزائ بھی ہے۔دل کو اطمینان ہوا کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ۴۲ جوان شہید کرا کر کسی مرحلے میں جوانمردی کا ثبوت تو دیا،اور نہ صرف پاکستان نے شمسی ائیر بیس خالی کروانے پرزور دیا بلکہ نیٹو افواج کو جانے والی سپلائی کو بھی معطل کر دیا۔جس کے باعث اتحادی افواج کو شدید مسائل درپیش آنے شروع ہو گئے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان نے نیٹو حملے کی جارحیت کے ردعمل میں ’’بون‘‘کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کردیایوں مسئلہ افغانستان پر ہونے والی یہ ’’عالمی کانفرنس‘‘بھی پاکستان کی شرکت کے بغیر منعقد ہو رہی ہے۔اس قدر سخت فیصلوں کے بعد امریکی صدر نے بھی فون کر کے معذرت ریکارڈ کروائی ۔اور دیگر امریکی حکام بھی پاکستانی حکمرانوں کو منانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف عمل ہیں۔
کاش یہ سب اقدامات اور فیصلے اس وقت ہی کر لیے جاتے جب روز ڈرون حملوں کے نتیجہ میں لاشیں گرتیں رہیں،قبائلی سرزمین خون میں نہلا دی گئی،کٹی پھٹی لاشیں زمین پر بے گوروکفن پڑی رہیں،لیکن کسی کو ان کا احساس نہ ہوا اور یہی سمجھا گیا کہ یہ مرنے والے انسان ہی نہیں۔اب جب کہ امریکہ نے ان کے اپنے ہی فوجیوںپر گولیاں برسائیں اور فوج کے ان جوانوں کو آن واحد میں شہید کر دیا جو ایک پہاڑی پر تعینات تھے۔اس وقت حکومت کو احساس ہوا اور یکایک امریکہ کی اس جارحیت کا سخت ایکشن لیا اور ابھی تک اس پر قائم ہیں۔ان شہیدوں کے خون نے حکمرانوں کے سوئے ہوئے دلوں میں کچھ تو بیداری پیدا کی۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ جی داری دکھاتے،اور اس منہ زور جانور کو لگام ڈالتے،لیکن یہ بس اس بات کی تکرار کرتے رہتے ہیں کہ ’’ہن مار کے ویکھ‘‘نہ جانے انہوں نے اپنے F-16طیارے پھلجھڑیوں کی جگہ چلانے کے لیے رکھ چھوڑے ہیں۔غوری ،غزنوی اور حتف میزائل فاصلے ماپنے اور جانچنے کے لیے رکھے ہیں اور توپیں بے چاری سلامی دینے کے سوا کوئی کام نہیں کرتیں۔منہ توڑ جواب دینے کے لیے سرے سے کوئی آرڈر ہی نہیں،حالانکہ اگر ان شہباز جوانوں کو ایک شارہ مل جائے تو یہ جرأت و شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کر دیں اور ’’نیٹو افواج ‘‘کو وہ سبق سکھائیں کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں۔اگر مرنا ہی ہے تو طارق بن زیاد کی طرح سفینہ جلا کر بھی لڑا،مرا جا سکتا ہے۔غیرت اور جذبہ ایمانی سے عاری حکمران قیادت کے یہ اقدامات بھی حوصلہ افزائ ہیں خدا کرے کہ یہ انہیں فیصلوں پر ثابت قدم رہیں۔
٭.٭.٭
مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے بارے میں اطلاع آئی ہے کہ جیسے ہی ان کے کالے کارناموں کی تفصیلات پوچھی گئیں،ان کی حالت بگڑ گئی اور انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔نہ جانے یہ مسلم دنیا کے اکثر حکمران ایک جیسے طبعی اثرات کے حامل کیوں ہیں۔یہ کئی کئی برس حکومت کرتے ہیں اس دوران انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی حکومت جائے اور احتساب کا شکنجہ کسا جائے تو انہیں’’امراض‘‘گھیر لیتے ہیں۔سائنسدانوں کہ چاہیے وہ ایسی عجیب و غریب بیماری کا پتہ لگائیں کہ آخر ایسی کون سے بیماری ہے،جو حکومت میں ہوتے ہوئے ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی، لیکن کرسی جاتے ہی اس زور سے حملہ آور ہوتی ہے کہ وہ ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔اور اگر پھر دوبارہ انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملے تو بیماری فوراً رفو چکر ہو جاتی ہے۔اس طرح کی تحقیق کے لیے پاکستان کی فضا بھی سازگار ہے۔ہمارے ہاں اس’’ احتسابی وائرس‘‘کا تازہ شکار مونس الہی تھے جو گرفتاری کے بعد بہت سے نامعلوم’’امراض‘‘کا شکار ہو گئے جس کی وجہ سے انہیں ایک ریسٹ ہاؤس میں رکھ کر علاج کیا گیا اور پھر عدالت سے ڈرامائی رہائی کے بعد ’’بھلے چنگے ‘‘ہو گئے۔دوسری طرف اس’’احتسابی وائرس‘‘کا شکار ہمارے ’’حجاج لوٹ ‘‘سابق وزیر صاحب بھی ہیں۔امید ہے انہیں بھی جلد’’علاج‘‘کے لیے کسی ریسٹ ہاؤس یا ہسپتال کے وی آئی پی روم میں منتقل کر دیا جائے گا۔
٭.٭.٭
کتنی عجیب بات ہے کہ اگر پاکستانیوں کا بس چلے تو سارے سیاست دانوں کو پانی کے جہاز میں بٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک آئیں،لیکن ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں سیاست پر سب سے زیادہ مغز ماری کرنے والی بھی یہی قوم ہے۔جہاں دو چار لوگ اکھٹے ہوئے،بات گھوم پھر کر سیاست پر آ جاتی ہے۔اپنے ملک کی تو بات ہی نرالی ہے یہاں تو پبلک ٹوائلٹ بھی عوام کے’’اعلیٰ‘‘سیاسی شعور سے آگاہ ہیں۔آج کل پورے پاکستان میں جگہ جگہ جلسے ہو رہے ہیں،جلوس نکل رہے ہیں ،ریلیاں ہو رہی ہیں،اور غریبوں کی ہمدردی میں ٹسوے بہا کر ’’کرسی‘‘کے حصول کے لیے تگ و دو جاری ہے۔آج کل دکانوں کے تھلوں اور ہوٹلوں کے تھڑوں پر جمنے والی محفلوں میں ’’کپتان صاحب‘‘ہٹ جا رہے ہیں۔اور ان کے ساتھ شامل ہونے والے’’ قریشی صاحب‘‘بھی آج کل موضوع بحث ہیں۔اور ہر کوئی ان کو لوٹوں کا لیڈر قرار دے رہا ہے۔’’قریشی صاحب‘‘پہلے نوازلیگ میں تھے پھر پی پی پی سے ہوتے ہوئے اب تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔پاکستان میں ’’لوٹا سیاست ‘‘اتنی مشہور ہو گئی ہے کہ ہر ایک کی زباں پر کسی لیڈر کے لیے لوٹا کی اصطلاح عام استعمال کی جا رہی ہے۔جس کے باعث کل ہی ایک باتھ روم میں پڑا ’’لوٹا‘‘بزباں حال شکوہ کنا تھا کہ کیا اللہ نے تمہیں اشرف المخلوقات اس لیے بنایا تھا کہ تم جھوٹ اور نا انصافی کا دامن تھام لو؟آخر مجھ میں اور تمہارے سیاست دانوں میں کو ن سی قدر مشترک ہے جو تم لوگ ان کو مجھ سے تشبیہ دے کر میری توہین کرتے ہو۔میں ایک باتھ روم میں پڑا پڑا جان ہار دیتا ہوں ،اور یہ بندرکی طرح شاخ شاخ پھدکتے پھرتے ہیں۔میں گند صاف کرتا ہوں اور یہ گند پھیلاتے ہیں۔میں اپنے باتھ روم سے عشق کرتا ہوں،اور یہ جگہ جگہ منہ مارتے ہیں۔میں بے لوث خدمت کرتا ہوں اور یہ ذاتی لالچ کے بغیر اپنے باپ کے بھی نہیں بنتے۔میری خدمت راحت اور انکی خدمت زحمت۔میرے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔اور میں نے راہ فرار اختیار کی لیکن یہ سوچ لیا کہ آئندہ سیاستدانوں کو ’’لوٹے‘‘کہہ کر ان بے زبان لوٹوں کی ہرگز توہین نہیں کروں گا۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ کہ پھر ان کو کس نام سے تشبیہ دی جائے،کوئی خوبی ان میں دور دور تک نظر نہیں آتی کہ نہ یہ ملک و قوم کے وفادار ہیں نہ ہی انہیں خدمت کی عادت ہے اور نہ ملک و قوم کے لیے سوچنے کی فرصت، بس ان کو تواقتدار عزیز ہے چاہے جہاں سے بھی ملے،جس حالت میں ملے۔یہ اسی کے لیے جیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ اور اپنی ان چھلانگوں کو ملکی سلامتی کے لیے لازم اور ضروری قرار دیتے ہیں۔
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔