’’ایک پھول سی بچی‘‘

تحریر: زبیر طیب
بہت عرصہ ہو گیا، اسلام آباد کے داخلی راستوں کی اکثر رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور وہ خاردار تاریں بھی اب نظروں سے نہیں الجھتی جو سن ۷۰۰۲ئ جولائی میں جا بجا بچھائی گئیں تھیں۔ یہ سال دردناک غموں اور دکھوں سے بھرا سال تھا۔اسلام آباد کی کوئی سڑک ایسی نہیں ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دل غمگین سا ہو جائے اور آنکھیں اشک بار ہو جائیں. ہاں مگر ایک جگہ، ایک سڑک ایسی ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دل بھاری سا ہوجاتا ہے اور جسم غم و غصہ کے مارے ہچکولے کھانے لگتا ہے۔
’’آب پارہ‘‘ سے جب ’’میلوڈی‘‘ کے طرف جاتے ہیں تو نظریں اچانک کچھ تلاش کرنے لگتی ہیں۔ لیکن خالی چٹیل میدان کو دیکھ کر واپس لوٹ آتی ہیں۔ اس جگہ کبھی ’’ جامعہ حفصہ ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں کچھ بھی نہیں۔یہاں اب کوئی نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی جو لوگ پہاڑی دیہات سے اسلام آباد آتے ہیں تو اس جگہ ضرور آتے ہیں۔ کیونکہ یہاں کبھی وہ اپنے بچوں سے ملنے آیا کرتے تھے۔ آج جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو دیکھا کہ ایک سفید داڑھی والا بزرگ ایک نواجوان اور دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ اس ویرانے میں گھوم رہا تھا۔ میں نے رکنا نہیں چاہا لیکن نہ جانے کیوں پاؤں خود بخود بریک پر چلے گئے۔ نیچے اتر کر ملبے پر اگی ہوئی گھاس کو دیکھنے لگا تو نظر ایک ننھے منے جنگلی پھول پر جم گئی۔ وہ گمنام سا ننھا منا پھول اسلام آباد کی ہلکی سی ہوا میں اس طرح جھوم رہا تھا جیسے سفید لباس پہنے چھوٹی سی پری نما بچی اپنا سر ہلا ہلا کر اپنا سبق یاد کر رہی ہو۔
میں نے واپس مڑنا چاہا لیکن اس ’’ پھول سی بچی ‘‘ نے جیسے مجھے جکڑ سا لیا ہو۔ مجھے یوں لگا جیسے میری نگاہوں کے سامنے سچ مچ کی ایک معصوم بچی آ کر کھڑی ہو گئی ہو۔ اور مجھے مسلسل گھور رہی ہو۔ہوا میں اڑتے ہوئے برف کے ذرے جتنے اس پھول نے ایک معصوم بچی کا روپ دھار لیا تھا۔ میں نے دل کی خاموش کے ساتھ اسے کہا ’’ مجھے جانے دو‘‘ اس نے کہا ’’ بھیا !’’ کچھ دیر رک جاؤ نا‘‘ میں اسے نہیں کہنا چاہتا تھا مگر نہ کہہ سکا۔ وہیں رکا رہا اور اسے دیکھتا رہا۔
اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ بالکل ویسی پریشان. جیسے کوئی بچہ کسی کھلی جگہ میں اپنے ماں، باپ کو نہ پا کر ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں کہنا چاہتیں تھیں کہ جب سورج اپنی کرنیں سمیٹتا ہوا بہت دور چلا جاتا ہے تو اس کا جی گھبرانے لگتا ہے، آتی ہوئی رات کے ڈر سے۔ کیونکہ اسلام آباد کی سرد رات دادی اماں کی طرح کہانیاں نہیں سناتی۔ یہ رات اور صرف ڈراتا ہے۔ انگلیوں سے سہلا کر نہیں بلکہ سہما کر سلاتی ہے اور اسے نیند نہیں آتی اس وحشت بھرے ویرانے میں!
یہ جب پھول نہیں بلکہ ایک بچی تھی تب اس سے ملنے اس کے اپنے آتے تھے اور ڈھیر سارے کھلونے بھی لاتے تھے اسے ٹافیاں دے جاتے تھے اور پیسے بھی.
وہ پھول جیسی بچی مجھے بتانا چاہ رہی تھی کہ اس نے وہ پیسے خرچ کرنے کی بجائے جمع کئے تھے۔ تاکہ جب وہ بڑی ہو جائے گی تو اپنے بھیا کے ہاتھ بہت اچھی اور بے حد رنگین چیزیں خریدے گی۔ مگر آپریشن میں استعمال ہونے والا فاسفورس بموں نے سب کچھ جلا دیا۔ کھلونوں کو بھی، ٹافیوں کو بھی، اس برتن کو بھی جس میں وہ پیسے جمع کرتی تھی اور اس کی سہیلیوں کو بھی.اور خود اس کو بھی!
’’بھیا ! بم برے ہوتے ہیں نا، یہ ہمیں جلا دیتے ہیں‘‘ پھول سی بچی نے معصومیت کے ساتھ کہا۔
’’ لیکن اس کو دشمنوں کی بجائے اپنے بچوں پر چلانے والے بد نصیب ان بموں سے کہیں برے ہوتے ہیں ‘‘ میں اس سے کہنا چاہتا تھا، مگر نہ کہہ سکا۔
میں سوچنے لگا۔ ان ننھے منے بچوں سے اتنی بڑی باتیں کس طرح کہی جا سکتی ہیں۔ بہت مشکل ہوتا ہے ننھے بچوں کو ملکی سیاست اور اس کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں بتانا اور یہ کہنا کہ کیسے ایک بد بخت انسان صرف اپنی انا کی خاطر سینکڑوں بچوں کا خون بہا دیتا ہے، بہت مشکل ہوتا ہے انہیں کچھ بتانا. مگر ان حکمرانوں کے لئے کتنا آسان ہوتا ہے اپنے اقتدار کی آبیاری انہی بچوں کے مقدس خون سے کرنا.
جامعہ حفصہ کے ملبے پر اگ آنے والے اس پھول کا معصوم بچی کے روپ میں ڈھل جانے کے بعد میں نے اسے بتانا بھی چاہا کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ پرویز کی حکومت ختم ہو گئیاور چیف جسٹس کی بحالی کے بعد اب’’ ظالم ‘‘جلد عوام کی عدالت میں ہو گا اور اسے ہر اس ظلم کا جواب دینا پڑے گا جو اس نے تمہارے ساتھ کیا، لیکن میں اس معصوم بچی سے کچھ نہ کہہ پایا۔ بس خاموش رہا۔ مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ جب فاسفورس سے جل کر معصوم بچے پھول بن جاتے ہیں، تب وہ سب کچھ جان لیتے ہیں۔
اس لئے پھول سی اس بچی نے کہا ’’ بھیا! آپ میری کہانی مت لکھیے گا۔ آپ یہ مت لکھیے گا کہ بموں کی آگ کسی طرح میرے چاروں طرف امڈ آئی اور اس کے شعلے کس طرح میری چادر سے چمٹ گئے اور میرے بال کس طرح جلنے لگے۔ میں کس طرح چلائی۔ کس طرح میرا دم گھٹنے لگا اور میں نے کیسے آخری سانس لی۔ اس کو مت لکھیں۔ یہ باتیں لکھنے سے میں واپس نہیں آ جاؤں گی۔ مگر ایک چھوتا سا کام ضرور کیجیے گا۔ اس ملک کے منصف اعلیٰ کو میری طرف سے بس اتنا لکھیے گاکہ :
چیف انکل:
جامعہ حفصہ کی معصوم شہید بچی کا سلام!
میں آپ کو صرف اتنا بتانا چاہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عظیم منصب پر بٹھایا ہے۔تاکہ آپ انصاف کر سکیں۔ وہ جو ظلم اور بے انصافی کی موت مارے جاتے ہیں، ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ مگر آپ ایسا نہیں کر سکے۔ آپ کے لئے اس ملک کے نہ جانے کتنے لوگوں نے دعائیں کیں، کتنی مشقتیں اور تکلیفیں بھی برداشت کیںْْ کیونکہ انہیں آپ میں ایک اچھا انسان نظر آتا تھا۔ لوگوں کو لگا تھا کہ اب انصاف کا بول بالا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مجھے بھی انصاف نہیں ملا۔ لیکن میں آج آپ سے انصاف نہیں مانگوں گی۔ اور مجھے تافیاں بھی نہیں چاہییں ۔ کیونکہ جب بچے شہید ہو جاتے ہیں تو انہیں ٹافیوں کی ضرورت نہیں رہتی۔
میں آپ سے اس لئے مخاطب ہوں کہ آپ کو بتاؤں کہ جب بچے شہید ہو جاتے ہیں تو بہت سمجھدار ہو جاتے ہیں۔ میں اب ظلم کی آگ میں جل کر بہت باشعور ہو گئی ہوں۔ اس لئے آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ خدارا آپ انصاف کریں۔ لوگوں کو ان کا حق دیں۔ جلد یا بدیر آپ کو جانا ہو گا . وقت بہت کم ہے اور نا انصافی بہت زیادہ ۔
 چیف انکل ! میں آپ کو یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ آپ بڑے لوگوں کے بڑے مقدمات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دیں۔ کیونکہ عام لوگوں کے لئے یہ چھوٹے مسائل بہت بڑے ہوتے ہیں۔ان مسائل کی طرف آپ کو زیادہ دھیان دینا چاہیے جس سے ایک چھوٹے غریب انسان کو فائدہ ہو۔آپ مہنگائی کم کریں، بجلی اور لوڈ شیڈنگ پر ارباب اقتدار کی سرزنش کریں اور امن و امان قائم کریں۔
اور انکل! میری خواہش ہے کہ کبھی زندگی میں ایک بار رات کے سناٹے میں، سب سے چھپ کر آپ اس جگہ ضرور آنا جہاں ہمیں زندہ جلایا گیا۔ اور پھر خود سے ایک سوال کیجیے گا کہ اگر آپ کی اپنی سگی، چھوٹی سی بیٹی بھی یہاں پھول کی کسی صورت موجود ہوتی تو آپ کیا کرتے؟
اس پھول سے بچی نے یہی کچھ کہا اور خاموش ہو گئی۔ میں وہاں سے جانے لگا۔
’’اور سنیے! اس نے مجھے پھر پکارا ‘‘
’’ واپس جا کر یہ بھی ضرور لکھنا کہ ایک شہید بچی نے یہ پیغام دیا ہے کہ پھر کبھی کسی ظالم کے ہاتھوں اپنے بچوں کی اجتماعی قبریں نہ بنوانا۔
 میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس شہید بچی کو کیا جواب دوں. میں اس پھول کو غور سے دیکھنے لگا۔ شاید اسی پھول کی جگہ پر اس بچی کا خون گرا ہو۔
میں نے سوچا. اس پھول کی آبیاری کے لئے تو آنسوؤں کا سمندر بھی نہ کافی ہے۔ میری جلتی ہوئی آنکھوں سے چند قطرے گرے تو سہی مگر. شاید اس پھول کو میرے ان آنسوؤں کی ضرورت نہیں تھی۔
 وہ پھر سے لہرا رہا تھا. جھوم رہا تھا۔
٭.٭.٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔