خون کی بوندیں

تحریر : زبیر طیب
یہ کہانی ہے شمالی وزیرستان کے علاقے درئی نشتر کی ایک تنگ و تاریک بستی کے ایک نیم پختہ گھر کی. رات کا وقت تھا۔ہر طرف خاموشی تھی۔ ایک گہرے سکوت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا کہ اچانک ایک ڈرون طیارہ فضا میں چنگھاڑتا ہوا، گہرے سکوت کو چیرتا ہوا ایک گھر کو تہس نہس کر گیا۔ اس گھر کے مکین شاید ٹھیک سے سمجھ ہی نہ پائے ہوں گے کہ ان کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے؟سننے میں آیا ہے کہ یہاں اس گھر میں موجود چند جاہل، گنوار اور جدید تہذیب سے ناآشنا لوگ امریکہ جیسی عظیم طاقت کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے تخلیق کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نیچے جھکتا ہے اور اپنی انگلی کی مدد سے زمین پر چند آڑھی ترچھی لکیریں ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ شخص دراصل ایک ایسے منصوبے کا خالق ہے جس کے تحت نیویارک، لندن اور واشنگٹن کو بیک وقت صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔اور اس کے بعد وہاں ایک فرسودہ تہذیب کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ ہو تو یہ بھی سکتا ہے کہ کسی اجنبی سیارے کی خلائی مخلوق کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات استعمال کرتے ہوئے وہ کسی اڑن طشتری میں بیٹھیں اور فضا سے حملہ کر کے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں. لیکن ان کے علم میں نہیں تھا کہ ہر دم چوکس امریکی افواج ان کے گرد گھیرا تنگ کر چکی ہیں اور پھر ایک دھماکہ ہوا اور ہر سو خاموشی چھا جاتی ہے. مکمل خاموشی. صرف ایک تین سالہ بچے کے کٹے ہوئے گلے سے گرتے خون کی ٹپ ٹپ کی آواز سنائی دے رہی ہوتی ہے۔ تمام دنیا کو مبارک ہو کہ امریکی مفادات بچ گئے، امریکہ پر حملہ کے امکانات معدوم ہو گئے اور امریکہ کی تباہی و بربادی ٹل گئی۔

اس ڈرون حملے پر امریکہ نے بیان جاری کیا ہے کہ ڈرون حملے امریکہ کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور ہم اپنے مفادات کے لئے ہر حد پار کر سکتے ہیں۔

کیا امریکن تھنک ٹینک کے کسی دانشور سے پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ یہ امریکی مفادات نامی شے آخر کیا بلا ہے.؟ کیا دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک میں سے صرف اسی ملک کے مفادات سب سے مقدم ہیں۔ کیا یہ اتنے ہی مقدس ہیں کہ ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا ایک شخص اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا۔ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت تو صرف اتنی ہے کہ ان لوگوں کا واحد قصور ان کا مسلمان اور پاکستانی ہونا ہے۔

میرا خیال ہے کہ ان کو اعتراض شاید ان کے طرز معاشرت پر ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہب پر سختی سے عمل پیرا رہتے ہیں اور یہی چیز شاید ان کو چبھتی ہے لیکن میں ان امریکیوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ’’سان فرانسسکو‘‘ کے کلبوں میں برپا خرافات آپ کے نزدیک جرم نہیں تو یہاں شکایت کیسی.؟ اگر آپ کے ہاں کم کپڑے پہننا فیشن ٹھہرا تو برقعہ پر اعتراض کا کیا مطلب ہے.؟ پہلے نیویارک کی گلیوں میں ہونے والی گینگ وار کو تو روکیے.امریکن معاشرے میں پائی جانے والی لاقانونیت’ لوٹ مار اور انتہا پسندی کو تو لگام دیجیے۔لیکن نہیں. شاید چودھراہٹ کا رعب جمانا آپ کے نزدیک زیادہ اہم ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے اس خطے کے لوگ نہ صرف امریکہ کو چبھتے ہیں بلکہ پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے بھی اس خطے کے مکینوں پر ’’ خاص مہربانی ‘‘ کی جاتی رہی ہے۔ ہمارے حکمران بظاہر امریکہ سے ان ڈرون حملوں پر رسمی سا احتجاج کرتے ہیںاور دائیں آنکھ دبا کر امریکہ کو اشارہ بھی کرتے ہیں کہ یہ سب ہم اپنی عوام کو بہلانے کے لئے کر رہے ہیں آپ کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ آپ ہماری خود مختاری پامال کر کے روز ڈرون حملوں کی سوغات بھیجا کریں۔

لیکن حیرت کی بات ہے کہ جس کی جنگ لڑتے لڑتے ہماری سانسیں پھول چکی ہیں ۔ ہماری سڑکوں اور گلیوں میں خون گرتا رہا عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے رہے لیکن ہم اپنے نام نہاد آقا کو خوش نہ کر سکے.’’ یہ سب کافی نہیں ہے‘‘ فون پر دھمکیاں دی جاری رہیں ہیں کہ ہماری جو مرضی آئے گی ہم کریں گے۔آہ. ہمارے حکمران ذرا سا قرآن پڑھ لیں تو ان مکار اسلام دشمنوں کے بارے میں بہت کچھ جان لیں۔ اور پھر کچھ یوں ہوا کہ بات دھمکیوں سے بہت آگے چلی گئی۔ بم باری، لاشیں، مذمت اور ڈو مور کا مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا اور اب تو افغانستان میں شکست کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی وجہ سے ہی ہم افغانستان میں جنگ ہار رہے ہیں، امریکی سینیٹر جان کیری کا یہ تازہ بیان امریکہ نواز پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔

دنیا کا کون سا قانون یا صحیفہ امریکہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جب دل چاہے اپنی کمین گاہ سے نکلے اور ہماری سرحدوں کو روندتا ہوا معصوم اور بے گناہ عورتوں اور بچوں پر آگ کی بارش برسانا شروع کر دے .

وحشیانہ امریکی بم باری سے شہید ہونے والے معصوم بچوں کی پتھرائی آنکھوں میں لاتعداد سوالات ہیں۔ ان کی خوف سے جمی نگاہیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھ رہی ہیں کہ یہ کیسی دو غلی پالیسی، کیسی منافقت ہے کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں مرنے والے تو معصوم اور مظلوم کہلاتے ہیں لیکن اگر چھوٹی عمر کے بچے بھی وزیرستان کی کسی کچی بستی کی جھونپڑی میں ’’ دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کا شکار ہو جاتے ہیں تو انہیں بھی انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان میں سے شاید کسی نے امریکہ کا نام تک نہ سنا ہو۔ لیکن ’’دہشت گردی‘‘ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا عزم رکھنے والوں کے نزدیک اس چیز کی ذرا اہمیت نہیں۔ مسلسل امریکی جارحیت پر ہمارے حکمرانوں اور عالمی برادری کی مستقل خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے ضمیر سو چکے ہیں بلکہ مر چکے ہیں۔

کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ جائیں کہ درئی نشتر میں بہنے والے خون کی رنگت نیلی یا سبز نہیں، سرخ ہی ہے.اور اس کی قدر و قیمت بھی اتنی ہی ہے جتنی کسی اور کے خون کی. خدارا خون مسلم کی ارزانی کو روک دیجیے۔ مسلمانوں کے خون کو اتنا سستا مت کیجیے۔ اپنے ہی ملک کے نوجوانوں، عورتوں اور بچوں کے خون کو کسی شیطان کے شیطانی عمل کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ خدارا کچھ تو خیال کریں۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ فرمایا ہے کہ ہم چندماہ میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کو ختم کر دیں گے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے عوام صبر کر یں حالات جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔

آپ کی مدت اقتدار تو بہت کم رہ گئی ہے گدی نشین صاحب.آج نہیں تو کل آپ کو جانا ہے ۔پھر عوام کو یہ خوبصورت خواب کیوں دکھا رہے ہیں۔ ویسے ایک بات تو ماننی پڑی گی کہ آپ نے عوام کو صبر کی تلقین کر کر کے صابر بنا دیا ہے۔گیس، بجلی، پانی ،گھراور روٹی کے بغیر صبر کرنے والی واقعی دنیا کی یہ نرالی قوم ہے۔

وزیر اعظم کے اس بیان پر خود عوام کا کہنا ہے کہ شاہ جی اب تو جھوٹ بولنا چھوڑ دیں جناب یہ باتیں اور طفل تسلیاں ہم پچھلے 4سال سے سن رہے ہیںاور اگر جھوٹ سے ہی مزید بقیہ عرصہ اقتدار گزارنے کا مصمم ارادہ ہے تو عوام کو سہا نے خواب ہی نہیںدکھانے تھے تاکہ عوام آپ کے آ سرے پر نہ بیٹھی ہو تی اور خود کو ختم کر لیتی اور آپ کے جھوٹے وعدوں پر اب ہم کسی حالت میں یقین نہیں کر یں گے اور آ پ شاید یہ باتیں بھی اپنے الیکشن کے لئے کئے جا رہے ہیں ۔شاہ جی جھوٹے سپنے نہ دکھائیں! اگر واقعی کچھ کرنے کا ارادہ ہے تو کہنے کی بجائے کچھ کر کے دکھائیں تاکہ ہمارا ملک اندھیر نگری سے نکلے اور ہم بنا کسی مشکل، پریشانی اورتکلیف کے جی سکیں۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم صدر پاکستان آصف علی زرداری کو سوئزرلینڈ حکام کے حوالے نہیں کر سکتے۔عدالت نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا اورعدالت کے فیصلے پر اپیل کروں گا۔

گیلانی اور زرداری دومترادف قوتوں کی شناخت ہیں۔ ہر قارون، دولت کا پجاری ، مخلوق خدا کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا زرداری کہلاتا ہے۔ جبکہ گیلانی اسی زرداری کا محافظ، اسکی خاطر سزا یافتہ ہونے میں خوشی محسوس کرنے والا، دولت کے پجاریوں کا خادم خاص اور چاپلوسی کرنے والے کا تصور دیتا ہے۔

زرداری کی لوٹ مار کے محافظ وزیر اعظم کا یہ بیان اعلیٰ عدلیہ کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ کہ آپ کا فیصلہ ہمیں قابل قبول نہیں، ہم جو چاہیں گے وہ کریں گے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ پیسہ ملک کے ان غریب لوگوں کا ہے جو آج پیٹ بھر کر دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔وزیر اعظم صاحب .!کاش آپ اس ملک کے غریبوں کا ساتھ دیتے اور زرداری کی لوٹ مار سکیم کا تحفظ نہ کرتے تو آج کوئی غریب خود کشی کرتا اور نہ ہی خود سوزی. مہنگائی کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوتا اور نہ بجلی کا بحران عوام کا جینا محال کرتا۔ آپ کو دکھوں کی ماری یہ عوام سر آنکھوں پر بٹھاتی۔ آپ کے جانے پر دو آنسو بھی بہاتی۔
لیکن آج جب آپ مسند اقتدار کو چھوڑ کر روانہ ہوں گے تو لوگ خوشی کے مارے مٹھائیاں بانٹیں گے، رب کے حضور شکر کریں گے، خوشی کے آنسو تک بہائیں گے۔ پتا ہے کس لئے.؟ کیونکہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی شمار ہوتا ہے۔ اور قوم صرف اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہے، ان کے جانے پر ان کو سیلوٹ کرتی ہے۔ انہیں شاندار طریقے سے اپنے دلوں میں جگہ دیتی ہے۔ لیکن ظالموں کے جانے پر خوش ہوتی ہے۔ انہیں جلد بھول جاتی ہے اور اگر کبھی سرراہ کسی ظالم کی کوئی بات یاد آ بھی جائے تو صرف برے لفظوں سے اس یاد کا استقبال کر کے چلتا کرتی ہے۔ اور’’ مسٹر پی ایم‘‘ آپ نے بھی یہی راستہ چنا ہے۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔