پچھتاوا

کہانی : زبیر طیب
بیٹا! کہاں ہو تم؟ میں مر رہی ہوں۔ اپنی ماں کو آخری بار نہیں دیکھو گے؟ یہ کہتے ہی فریدہ بیگم کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر نیچے زمین پر آگرتا ہے۔ ہسپتال کے ایک کمرے میں موجود فرمان کی امی زندگی کی آخری سانسیں لے رہیں تھیں۔ کینسر کے مرض نے فریدہ بیگم کو پوری طرح جکڑ لیا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں سب ان کے ارد گرد جمع تھے۔ فریدہ بیگم نے بمشکل آنکھیں کھول کر ان سب کے چہروں پر نظر دوڑائی، لیکن ان کو وہ چہرہ نظر نہیں آیا جو ان کی کل کائنات تھا۔ غم کی شدت کے مارے ان کا دل پھٹنے کے قریب تھا، آنکھوں سے آنسو روانی کے ساتھ بہنے لگے۔
فریدہ بیگم نے پاس کھڑی ایک نرس سے کاغذ، قلم لانے کو کہا۔ نرس نے کاغذ اور قلم لا کر ان کے ہاتھ میں تھمایا اور فریدہ بیگم کے کہنے پر ان کی بیٹھنے میں مدد کی، فریدہ بیگم نے اپنی پوری ہمت مجتمع کرکے کانپتے ہاتھوں سے لکھنا شروع کیا۔ ابھی انہوں نے چند سطریں ہی لکھیں تھیں کہ ان کی حالت خراب ہونے لگی۔ ڈاکٹر اور نرس دوڑی آئیں۔ کاغذ، قلم ان کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ ان کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا، ڈاکٹر ان کی حالت سے تقریباً مایوس ہونے لگے تھے۔
فریدہ بیگم کو شاید اب موت مزید مہلت نہیں دینے والی تھی۔ ان کے چہرہ پر آکسیجن ماسک چڑھا ہوا تھا، وہ بمشکل اپنی گردن موڑ کر لیٹے لیٹے کمرے کے واحد دروازے کی طرف دیکھنے لگیں کہ شاید وہ آجائے۔
فرمان اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ابھی وہ دوسال ہی کا تھا کہ فرمان کے ابو ایک حادثہ میں انتقال کرگئے، فرمان کی ساری ذمہ داری اس کی امی فریدہ بیگم پر آپڑی تھی۔ رشتہ دار بھی کچھ ایسے نہ تھے جو اس کڑے وقت میں فریدہ بیگم کا ساتھ دیتے۔ سب تسلیاں دے کر رخصت ہوگئے۔ فرمان کے ابو نے زیادہ جائیداد نہ چھوڑی تھی۔ ایک مکان تھا، اور کچھ نقد رقم بھی موجود تھی جو آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی تھی۔ فرمان جس نے ابھی ٹھیک سے بولنا بھی نہ سیکھا تھا، باپ کی شفقت اور سایہ سے محروم ہوگیا۔ فریدہ بیگم جب بھی اس ننھے بچے کو دیکھتیں تو دکھ اور درد سے ان کا دل خون کے آنسو رونے لگتا، اور وہ سوچنے لگتیں کہ جب فرمان بڑا ہو جائے گا ،سمجھدار بنے گا اگر کبھی اپنے ابو کے بارے میں پوچھ لیا تو؟ میں اسے کیا جواب دوں گی۔ یہ سوچ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتیں۔
اب فرمان ہی ان کی زندگی تھا، وہ چاہتی تھیں کہ فرمان کو کبھی اپنے ابو کی کمی کا احساس نہ ہو، ان کی خواہش تھی کہ وہ فرمان کو اچھی تعلیم دیں گی، اس کو نیک بنائیں گی۔ ایک پیارا انسان بنائیں گی۔ چنانچہ انہوں نے گھر میں ہی سلائی مشین پر لوگوں کے کپڑے سلائی کرنا شروع کردیئے اور اپنی صحت کا خیال رکھے بغیر دن، رات ایک کردیئے۔
فرمان اب بڑا ہورہا تھا۔ وہ اپنی معصومانہ زبان میں جب امی، امی کہہ کر پکارتا تو فریدہ بیگم کا دل خوشی سے بھر جاتا۔ فرمان کی تعلیم کا بندوبست ہوگیا۔ وہ اب پڑھنے لگا تھا، فریدہ بیگم کو اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے مزید محنت کرناپڑ رہی تھی۔
وہ پہلا دن تھا جب فریدہ بیگم کو احساس ہوا کہ فرمان کی فرمانبرداری اب نافرمانی میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ فرمان آج جب پڑھ کر واپس آیا تو کہنے لگا:
’’امی! ہمارے سکول کا ٹرپ مری جارہا ہے۔ اس کے لئے سب بچوں سے پندرہ پندرہ سو روپے لے رہے ہیں۔ میں نے بھی جانا ہے۔ آپ مجھے پندرہ سو روپے کل دے دینا۔‘‘
فریدہ بیگم یہ سن کر پریشان ہوگئیں کہ وہ فرمان کی فیس پہلے ہی بہت مشکل سے ادا کر رہی ہیں۔ اب یک لخت وہ کیسے پندرہ سو روپے کا بندوبست کریں۔ انہوں نے فرمان کو سمجھانا چاہا مگر فرمان اپنی ضد پر قائم رہا۔ حالانکہ وہ اب سمجھدار ہوگیا تھا۔ وہ اپنی ماں کی ہر پریشانی کو سمجھ سکتا تھا۔ لیکن سیر پر جانے کی ضد نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ رات کو فریدہ بیگم نے فرمان کے موڈ کو ٹھیک کرنے کے لئے اس کی پسند کے چاول بنائے اور فرمان کے کمرے میں جا کر اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلانے کی کوشش کرنے لگیں۔ لیکن فرمان ہر بار ان کے ہاتھ کو جھٹک دیتا اور ایک بار تو اس نے اس زور سے ہاتھ کو جھٹکا دیا کہ فریدہ بیگم کے ہاتھ سے چاولوں کی پلیٹ چھوٹ کر زمین پر آگری۔ لیکن پھر بھی وہ فرمان کو مسلسل مناتی رہیں۔ رات کا کافی وقت گزرچکا تھا۔
فرمان کی امی تھک ہار کر کمرے سے باہر آنے لگیں تب فرمان نے وہ کہا جو فریدہ بیگم کو اندر تک زخمی کرگیا، فرمان کہنے لگا:
’’امی! اگر آج میرے ابو ہوتے تو وہ کبھی اس طرح انکار نہ کرتے‘‘۔
فریدہ بیگم نے دروازہ کی چوکٹ کو پکڑ لیا اور ان کا سر چکرانے لگا، وہ بمشکل اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اپنے کمرے تک آئیں اور دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ آخر انہوں نے ایک فیصلہ کیا۔ وہ فون سیٹ کے پاس آئیں اور اپنی ایک جاننے والی کو فون کرنے لگیں۔ فریدہ بیگم نے دوسری طرف سے آواز سننے کے بعد کہا:
’’عظمیٰ بہن! آج ایک کام آپڑا ہے اگر میں کچھ مانگوں تو تم انکار تو نہیں کرو گی۔ دوسری طرف سے آواز سننے کے بعد کہا کہ مجھے اپنے فرمان کے لئے پندرہ سو روپے چاہئیں۔ اس کے بعد تم مجھ سے کپڑے سلوا لینا، مجھ پر احسان ہوگا۔‘‘
بہرحال جیسے تیسے کرکے فریدہ بیگم نے زندگی میں پہلی بار کسی سے یوں احسان مانگا تھا۔ فرمان سیر پر جانے کے لئے تیار تھا۔ انہوں نے فرمان کو بہت سی نصیحتیں کیں۔ جی بھر کر گلے لگایا اور روانہ کردیا۔
دن یونہی گزرنے لگے۔ فرمان اب بچپن کی سرحد سے نکل کر جوانی کی عمر کو پہنچ چکا تھا، فریدہ بیگم نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ فرمان ایک اچھا اور نیک انسان بنے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس فرمان صرف نام کا فرمان رہ گیا تھاوہ اب مکمل نافرمان بن چکا تھا۔
فرمان بیٹا! اٹھو نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ فریدہ بیگم نے پیار سے فرمان کو فجر کی نماز کے لئے اٹھایا۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید آج فرمان اٹھ کر اپنی آنکھیں ملے گا اور کہے گا۔ جی امی! میں ابھی نماز پڑھنے جارہا ہوں۔
لیکن فرمان بے سدھ لیٹا رہا۔ کئی بار اٹھانے کے باوجود بھی فرمان نہ اٹھا اور جان بوجھ کر سوتا رہا۔ فرمان کی امی اس دن سجدے میں گر کر فرمان کے لئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کرنے لگیں کہ کاش فرمان ویسا بن جائے جیسا وہ چاہتی ہیں۔ ایک فرمانبردار، نیک اور پیارا انسان بن جائے۔ میری گود میں سررکھ کر ’’جی امی‘‘ کہنے والا بن جائے۔ کبھی کبھی مجھ سے پوچھا کرے امی کیا میں ذرا آپ کو دبا دوں؟ کاش وہ میری ہربات پر فوری عمل کرنے والا بن جائے۔ کاش وہ مجھ سے پیار کرنے لگے۔ کاش کبھی اس کے دل میں یہ خیال آئے کہ میں نے اسے کتنی مشکل سے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ جائے نماز کی سجدے کی جگہ فریدہ بیگم کے آنسوئوں سے بھیگ چکی تھی۔
رمضان کا مقدس مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ فریدہ بیگم خشوع و خضوع سے گھر کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں تاکہ رمضان کے مقدس مہینہ کا اچھی طرح سے استقبال کیا جاسکے۔ فرمان کو بھی انہوں نے رمضان کے لئے سودا سلف لانے کو کہا، اور رمضان کے بارے میں مختلف نصیحتیں کرنے لگیں۔ فرمان نے اپنی امی سے رمضان اچھا گزارنے کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن فرمان اب حد سے گزرنے لگا تھا۔ جان بوجھ کر کوئی بہانہ تراش کر ہر دوسرے دن روزہ نہ رکھنے کا اعلان کردیتا اور عبادت میں وقت گزارنے کی بجائے اپنی موٹرسائیکل پر ادھر ادھر آوارہ گردی میں وقت گزار دیتا۔
فریدہ بیگم کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا۔ انہوں نے کبھی فرمان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا وہ اس کی ہر بری بات، ہر غلطی پر سرزنش کرکے اسے خود ہی مناتیں اور اسے اچھا بننے کی تلقین کرتی رہتیں۔
دن، مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلنے لگے۔ وقت پر لگا کر اڑ گیا۔ فریدہ بیگم اب ڈھلتی عمر کے ساتھ سخت محنت کرنے کی وجہ سے تھک چکیں تھیں۔ اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے وہ بیمار بھی رہنے لگیں تھیں۔ فرمان نے بدلنا تھا نہ وہ بدلا رات کو دیر سے سے گھر آنا، ماں کے سامنے اونچے لہجے میں بات کرنا، الٹے کاموں میں شریک ہونا فرمان کے معمولات میں شامل تھا۔
کافی دنوں سے مسلسل کپڑے سینے کی وجہ سے فریدہ بیگم کی آنکھوں میں شدید درد تھا۔ انہوں نے فرمان کو بار بار کہا کہ وہ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ مگر فرمان کے پاس ماں کے لئے کہاں وقت تھا۔ چنانچہ فریدہ بیگم نے اپنے ساتھ والے گھر کی ایک عورت کو بلوایا اور اس کے ساتھ ہسپتال جا پہنچیں۔ ڈاکٹر نے ان کی طبیعت دیکھ کر مختلف ٹیسٹ کروانے کا کہا۔ ٹیسٹ کروانے کے بعد یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ انہیں کینسر کا موذی مرض ہے۔
یہ سن کر فریدہ بیگم سکتہ میں آگئیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر آپ نے اپنی طبیعت کی دیکھ بھال ٹھیک طرح سے نہ کی تو آپ کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ فرمان کی امی اسی دن سمجھ گئیں کہ ان کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے انہیں اپنی کوئی فکر نہ تھی۔ فکر اور پریشانی تھی تو بس فرمان کے لئے کہ میرے بعد میرے اس لاپرواہ بیٹے کا کیا بنے گا۔
فرمان جب گھر پہنچا تو فریدہ بیگم نے وہ تمام رپورٹیں چھپا لیں اور فرمان کو بتایا کہ مجھے بس معمولی بخار ہے۔ فریدہ بیگم نے فرمان کو نہ بتانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
دن گزرتے رہے. فریدہ بیگم نے مزید محنت شروع کردی۔ دن، رات کپڑے سی کر رقم جمع کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ان کو نظر بھی کم آنے لگا تھا، شدید محنت نے وقت سے پہلے انہیں بوڑھا کردیا تھا۔
بیٹا! مجھے عینک کی ضرورت ہے، اگر آج ہم ڈاکٹر کے پاس چلیں تو میں اپنی نظر چیک کروا لوں گی۔ مسلسل فرمان کی منت کرتے کرتے آج فریدہ بیگم کو تیسرا دن تھا۔ لیکن فرمان مسلسل انکار کیے جارہا تھا۔ آخرکارفرمان کو کچھ وقت ملا اور وہ اپنی ماں کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا۔ فریدہ بیگم آج بہت خوش تھیں کہ ان کا بیٹا آج اپنے ساتھ مجھے ڈاکٹر کے پاس لایا ہے۔ فریدہ بیگم کو بھاری شیشوں کی عینک لگ گئی۔
مرض کی شدت بڑھ رہی تھی۔ فریدہ بیگم اس خوفناک کینسر کو خودہی سہہ رہی تھیں۔ ایک رات جب فرمان کی امی عشائ کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئیں تو ان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئی، وہ کھڑے کھڑے نیچے گرگئیں۔ انہوں نے زور سے چلا کر پکارا، فرمان، فرمان لیکن فرمان گھر پر ہوتا تو جواب دیتا۔ ان کی سانسیں اکھڑ اکھڑ کر چل رہیں تھیں۔ آخری احساس ان کو یہی ہوا کہ شاید وہ اپنی آنکھیں کبھی نہ کھول سکیں گی۔
کچھ دیر بعد فرمان گھر میں داخل ہوا۔ موٹر سائیکل کھڑا کیا اور سیدھا اپنے کمرے میں جا کر جوتوں سمیت بیڈ پر دارز ہوگیا۔ اور زور سے آواز دی۔
امی! کھانا دے دیں۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کو کھانا دینے والی آج ساتھ والے کمرے میں ننگے فرش پر بے سدھ پڑی ہے۔ کوئی جواب نہ پاکر فرمان اٹھا اور ساتھ والے کمرے میں آیا۔ صورتحال دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہونے لگے۔ وہ باہر کی طرف بھاگا اور اہل محلہ کو پکارنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ایمبولینس آگئی اور فریدہ بیگم دوسری بار اپنے بیٹے کے ساتھ ہسپتال جا پہنچیں۔ سفید چادر اوڑھے منہ پر آکسیجن ماسک لگائے آج فریدہ ہسپتال کے ایک کمرے میں بستر پر دراز تھیں۔ فرمان کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی کے آثار تھے وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کی امی کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ اپنی ماں کے پاس آکر بیٹھ گیا ان کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر غور سے اپنی ماں کو دیکھنے لگا۔ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔
کچھ دن کے بعد فریدہ بیگم کی حالت سنبھلی تو ہسپتال سے وہ گھر آگئیں۔ مرض نے ان کو بہت کمزور کردیا تھا۔ فرمان نے کچھ دن دل لگا کر اپنی ماں کی خدمت کی لیکن کچھ دن کے بعد اس کی وہی مصروفیات تھیں۔ فریدہ بیگم مسلسل سمجھا سمجھا کر تھک گئیں تھیں۔ اپنے بیٹے کی پریشانی کا اتنا خیال تھا کہ فرمان کو نہ بتانا مجھے کینسر ہے۔
فرمان کے طور طریقے عادات و اطوار وہی تھے۔ وہ اب اپنی ماں سے زبان درازی بھی کرنے لگتا تھا۔ وہ سب خواب بکھر گئے جو فرمان کی امی نے اپنی آنکھوں میں بسائے تھے۔ وہ سب چاہتیں دم توڑ گئیں تھیں، کبھی فرمان کی امی نے اپنے دل میں سوچی تھیں وہ سب خواہشیں ختم ہوگئیں جس کے لئے فرمان کی امی نے اتنی محنت کی تھی۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ صبح سے فریدہ بیگم کی حالت کافی خراب تھی، فرمان شام کے وقت گھر سے باہر نکلنے لگا تو فریدہ بیگم بولیں :
’’بیٹا! آج نہ جانا میرا دل بہت بیٹھا جارہا ہے طبیعت بھی ٹھیک نہیں تم آج باہر مت جائو۔‘‘امی جان! کچھ نہیں ہوگا آپ کو، آج نئے سال کا جشن ہے۔ میرے سب دوست ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ منانے کے لئے ایک مشہور پارک میں جمع ہورہے ہیں، مجھے بھی وہاں لازمی جانا ہے، فرمان نے حسب سا بق ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’فرمان بیٹا! ہیپی نیو ائیر منانا اور اس پر جشن کرنا یہ غیر مسلموں کا کام ہے۔ ایسی محفلوں میں جانا بہت نقصان دہ ہے۔ اگر نیا سال منانے کا اتنا ہی شوق ہے تو اسلامی سال جب شروع ہو تب منا لیا کرو، اب تو بالکل مت جائو۔ یوں خرافات میں جانے سے بچ جائو گے۔ اور میرا دل بھی خوش ہوگا۔‘‘
فرمان ماں کی بات سنی ان سنی کرتا ہوا چلا گیا۔ فریدہ بیگم کے غم میں مزید اضافہ ہوگیا۔ طبیعت بھی ناساز ہونے لگی۔ فریدہ بیگم نے جیسے تیسے مغرب کی نماز پڑھی طبیعت مزید خراب ہونے لگی تھی۔ چہرے کا رنگ زرد پڑتا جارہا تھا۔ بڑی مشکل سے تپائی پر رکھے فون کے پاس آئیں اور فرمان کا نمبر ڈائل کرنے لگیں۔ ابھی آدھے نمبر ہی ملا پائیں تھیں کہ دل اس زور سے دھڑکا اور فریدہ بیگم نیچے زمین پر جاگریں۔ اور کچھ ہی دیر میں بے ہوش ہوگئیں۔
اسی دوران باہر کا دروازہ کوئی مسلسل بجانے لگا۔ جب کسی نے بھی دروازہ نہ کھولا تو آنے والے نے محلے والوں کو اکٹھا کر لیا۔ اور صورتحال بتائی۔ دیوار پھلانگ کر دروازہ کھولا گیا تو صورتحال جان کر فوراً ایمبولینس بلوائی اور فریدہ بیگم کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد فریدہ بیگم کو کچھ دیر کے لئے ہوش آیا تو فرمان کو فون کرنا چاہا اور بس اتنا ہی کہہ سکیں۔
٭٭٭
فرمان آج ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ منانے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک پارک میں آیا ہوا تھا۔ اسے یہاں آئے ہوئے تین گھنٹوں سے کچھ اوپر وقت ہوگیا تھا۔ اچانک اس کے موبائل فون پر کال آئی، دوسری طرف اس کی ماں کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز تھی۔
فرمان بیٹا! کہاں ہو تم؟ میں مر رہی ہوں۔ اپنی ماں کو آخری بار نہیں دیکھو گے۔ اتنا ہی سنا تھا کہ فون آف ہوگیا۔ فرمان یہ سن کر سکتہ میں آگیا۔ فوراً اپنے موٹر سائیکل کی طرف بھاگا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ موٹر سائیکل پنکچر ہے۔
فرمان فوراً دوستوں کے پاس آیا اور ان سے موٹر سائیکل مانگنے لگا۔ لیکن ہاں میں ہاں ملانے والے یہ دوست آج اس کی مشکل وقت میں مدد کرنے کے لئے آئیں، بائیں، شائیں کرنے لگے۔ کسی دوست نے اپنی موٹر سائیکل نہ دی۔ جن دوستوں کی خاطر آج وہ اپنی ماں کو بیمار حالت میں چھوڑ آیا تھا۔ آج وہی دوست اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا۔ بے ہنگم شور ہرطرف برپا تھا۔ وہ پارک سے نکل آیا اور پیدل دوڑنے لگا۔ سڑک پر اِکا، دُکا گاڑیاں آجا رہی تھیں لیکن کسی نے فرمان کی مدد نہ کی۔ کچھ ہی دیر بعد فرمان ہانپنے لگا۔ اس کا دل انجانے خوف سے لرز رہا تھا۔ ابھی اس نے آدھا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ وہ مزید دوڑنے لگا۔ اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا۔ گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہ اور گھبرا گیا۔ گھر میں داخل ہوا اور ماں کو ادھر ادھر تلاش کرنے لگا لیکن کوئی بھی گھر پر نہیں تھا۔ وہ باہر آیا ہمسایوں سے اسے پتہ چلا کہ اس کی ماں کو شدید بیماری کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ وہ یہ سن کر ہسپتال کی جانب دوڑ پڑا۔
ادھر ہسپتال میں کوئی اس کا انتظار کرتے کرتے زندگی ہار رہا تھا۔ اچانک فریدہ بیگم نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے دروازے کے اندر داخل ہوتے فرمان کو دیکھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھر آئی اور کلمہ پڑھا، آخری سانس لیا اور ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ فرمان کو کچھ کہنے کا موقع نہ ملا۔ وہ بھیگے کپڑوں میں ملبوس اپنی ماں کا ہاتھ تھامے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ واحد سہارا بھی چھن گیا جس کی فرمان نے قدر نہ کی تھی۔ وہ امی، امی کہہ کر ماں سے لپٹے جارہا تھا۔ اچانک اس کی نظر فریدہ بیگم کی بند مٹھی میں پڑے ایک کاغذ پر پڑی۔ فرمان نے آہستگی سے وہ کاغذ نکالا اور پڑھنے لگا۔
’’فرمان بیٹا! شاید میں تم سے آخری بار مخاطب ہوں۔ بیٹے جب میں چلی جائوں تو زیادہ پریشان مت ہونا۔ بس اپنا خیال رکھنا تمہارے لئے زیادہ کچھ نہیں چھوڑ سکی۔ ہاں سلائی مشین کے اندر میں نے ایک لاکھ روپے رکھے ہیں یہ پیسے میں نے تمہارے لئے جمع کیے ہیں۔ بس بیٹا! ایک گھر اور یہ رقم ہی جمع کرسکی۔ تھوڑے لگیں تو ناراض مت ہونا، اور معاف کردینا، اور ہاں سنو! بیٹا۔
یاد ہے جب ہم اکٹھے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔ تب تم نے اپنے ہاتھوں سے مجھے عینک پہنائی تھی۔ میں نے بس اس ایک خوبصورت لمحے میں اپنی ساری زندگی جی لی تھی۔ اللہ حافظ بیٹا!‘‘
فرمان خط پڑھ کر بے تحاشا رونے لگا۔ زندگی میں پہلی بار اسے خود سے نفرت ہونے لگی تھی۔ ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ منا کر اس رات کو فرمان نے ایک نئے سال کے ابتدائی لمحے کو تو پالیا تھا لیکن اس نے اپنی قیمتی ترین چیز جس کے ساتھ اس نے نئے سال کے تمام لمحات گزارنے تھے، کھو دیا تھا۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔