ایک چھوٹا سا انسان

تحریر: زبیر طیب
ہر صبح جب ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے اور بڑے لوگوں کی بستی میں گہرا سناٹا چھایا ہوا ہوتا ہے۔وہ گلابی چہرے والا ننھا منھا بچہ کندھے پر کچرے کا تھیلا لٹکائے یہاں سے گزرتا ہے اور بڑے لوگوں کے پھینکے ہوئے ’’ریپر‘‘ ’’برگرز کے خالی ڈبے ‘‘اورفاسٹ فوڈ کے ڈھیروں شاپر یہاں پر اسے روز ملتے ہیں۔وہ جب بھی یہاں آتا ہے تو اس کی نظریں اردگرد پڑے کاغذ ، ردی، پلاسٹک اور تاروں کی تلاش میں رہتی ہیں اور قدم تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔وہ اسی طرح روز ادھر ادھر دیکھتا ہوا چلتا جاتا ہے،یہاں تک کہ نگاہوں سے غائب ہو جاتا ہے۔یہ اس کا روز کا معمول ہے،بالکل اسی طرح جیسے سورج اپنے معمول کے مطابق طلوع ہوتا ہے۔چاہے سخت سردی کے دن ہوں یا آگ برساتا سورج کا دن ہو وہ کبھی آرام نہ کرتا تھا۔میں نے آج تک اس کے چہرے پر تھکن کے اثرات نہیں دیکھے تھے۔لیکن آج وہ اپنے معمول کے برخلاف سڑکے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھا رو رہا تھا۔اس کا تھیلا اس کے پاس رکھا تھا اور وہ مایوس بھری نگاہوں سے کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھ رہا تھا۔میں بھی واک کرتا ہوا اسے آج یوں خلاف معمول بیٹھا دیکھ کر بلا ارداہ اس کے قریب جا کھڑا ہوا۔
’’کیا ہوا بیٹا؟کیوں رو رہے ہو؟‘‘
’’انکل!آپ کو پتہ ہے.؟‘‘
’’کیا بیٹا؟‘‘میں نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔
’’یہاں کباڑیے کی کوئی اور دکان ہے؟‘‘اس نے اپنی ہچکیوں پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں مجھے تو نہیں معلوم لیکن تمہیں تو پتہ ہونی چاہیے‘‘میں نے اس کے اس عجیب و غریب سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں انکل! میں روزانہ یہاں سے گزرنے والے ایک کباڑیے کو اپنا یہ اکٹھا کیا ہوا مال بیچتا ہوں آج اسکی گاڑی نہیں آئی پتہ نہیں کیوں؟‘‘یہ کہہ کر وہ پھر بھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
’’تو تم کسی اور دکان کو تلاش کرو اور اسے اپنا مال بیچ دو‘‘میں نے اسے تسلی دی۔
’’یہی تو مسئلہ ہے انکل اور کوئی دکان نہیں مل رہی۔لگتا ہے آج پھر میرے سب گھر والوں کو بھوکا سونا پڑے گا‘‘

میں اسکی یہ بات سن کر حیرت زدہ ہو گیا اور اپنا تجسس دور کرنے کے لئے میں نے اسے قریب ہی ایک ہوٹل میں ناشتہ کی دعوت دے ڈالی۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم ہوٹل پہنچ گئے اور میں نے اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔
’’کیا نام ہے تمہارا بیٹا؟‘‘
’’احمد حسن..‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہو ؟ ‘‘
’’پشاور کا ‘‘
’’یہاں کہاں رہتے ہو ؟‘‘
’’ہائی وے روڈ کے پاس.‘‘
کتنی عمر ہے تمہاری؟
’’بارہ سال ‘‘
’’کتنے عرصے سے یہ کاغذ چن رہے ہو؟‘‘
’’چار سال سے ‘‘
’’تم یہ کام چھوڑ کر کسی سکول میں پڑھ کیوں نہیں لیتے؟‘‘
’’نہیں انکل! میں نہیں پڑھ سکتا۔حالانکہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے اور اب بھی کسی کتاب کو دیکھتا ہوں تو اسے پڑھنے کی بھر پور کوشش کرتا ہوں..‘‘
’’تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’کمرشل مارکیٹ میں چوکیداری کرتے ہیں.‘‘
’’کتنی تنخواہ ملتی ہے ان کو؟ ‘‘
’’پچیس سو روپے. ‘‘
’’مکان اپنا ہے یا کرائے پر؟‘‘
کرایہ دیتے ہیں بائیس سو روپے اور باقی جو پیسے بچ جاتے ہیں ان کا گھر کے لئے آٹا لے آتے ہیں ‘‘
’’ تم صبح کتنے بجے گھر سے نکلتے ہو ‘‘
’’صبح سویرے.نماز کے بعد ‘‘
’’دن میں کتنے پیسے بن جاتے ہیں؟‘‘
’’کبھی تیس، کبھی پچاس اور کبھی ایک سو روپے‘‘
’’روز کتنا چکر لگاتے ہو؟ ‘‘
’’روز اتنا چکر لگاتا ہوں کے شام ہوتے ہی گھر واپس پہنچ سکوں‘‘
’’جو پیسے ملتے ہیں ان کا کیا کرتے ہو؟‘‘
’’امی کو دے دیتا ہوں۔وہ ان پیسوں سے کھانا خریدتی ہیں۔گھر کا کھانا ان پیسوں سے ہی آتا ہے جو میں کما کر لے جاتا ہوں۔ابو کی ساری تنخواہ تو گھر کا کرایہ اور بجلی ، گیس کے بل میں نمٹ جاتی ہے۔‘‘
’’شام کے وقت کیا کرتے ہو؟‘‘
’’گھر کا چھوٹا موٹا کام کرتا ہوں اور کبھی اگر جلدی گھر لوٹ آؤں تو ابو اور میں مزدوری کی تلاش میں نکل جاتے ہیں‘‘
’’بہن بھائی کتنے ہیں تمہارے؟‘‘
ہم دو بھائی ہیں اور ایک بہن ہے۔میں بہن بھائیوں میں بڑا ہوں۔
’’تمہارے بہن بھائی کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’گھر میں رہتے ہیں‘‘
’’پڑھتے نہیں؟‘‘
وہ بھی میری طرح فی الحال نہیں پڑھ سکتے کیونکہ خرچہ نہیں ہے۔لیکن میں بہت محنت کروں گا اور دن رات محنت مزدوری کروں گا تاکہ ان کو پڑھا سکوں۔جو مجھے نہیں مل سکا وہ میں ان کو دے سکوں‘
’’آج رو کیوں رہے تھے؟‘‘
’’ انکل! آج جب مجھ سے مال لینے گاڑی نہیں آئی تو میں پریشان ہو گیا تھا کہ آج اگر کوئی اور کباڑیے کی دکان نہ ملی تو آج میرے ماں ، باپ ،بہن ،بھائی بھوکے سوئیں گے۔اس لئے میں رو رہا تھا۔پھر آج کل ماں بھی بیمار ہے اس کے لئے دوائی کے پیسے بھی جمع کر رہا ہوں ‘‘
انٹرویو ختم ہو چکا تھا اور ناشتہ بھی۔میں نے اپنی جیب سے ایک بڑی مالیت کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔اس نے ایک نظر اس نوٹ پر ڈالی اور کہا۔
’’نہیں صاحب! مجھے بھیک نہیں چاہیے‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا، سلام کیا اور پھر اپنا تھیلا کندھے پر لٹکائے منزل کی طرف چل دیا اور میں اسے وہیں بیٹھا دیکھتا رہا اور ذہن میں سوچوں نے یلغار کر دی۔
’’یہ دنیا بھی کتنی عجیب اور رنگ برنگی ہے؟ ‘‘ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں۔جو ظلم کر کے کماتے ہیں، جو دوسروں کا پیٹ کاٹ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔جو حرام کا کھاتے ہیں اور حرام پر لگاتے ہیں۔رشوت ان کا رزق ہوتا ہے اور لوٹ مار ان کا کاروبار۔ان کی آسودگی غریبوں کی ٹوٹتی تسلی سے جنم لیتی ہے اور ان کی خوشحالی کمزوروں کی بد حالی کے مرہون منت ہوتی ہے۔یہ سب لوگ ابھی تک خواب غفلت میں پڑے سو رہے ہوں گے۔اپنے عالی شان بنگلوں میں اور اونچی اونچی کوٹھیوں میں.اور یہ نھنا بچہ ہر روز سات آٹھ گھنٹے پیدل چلتا ہے۔کچرے کے ڈھیر سے کاغذ چنتا ہے اور پھر انہیں بیچ کر اپنا، اپنے ماں باپ کا اور انے بہن بھائیوں کا پیٹ پالتا ہے۔خود حلال کھاتا ہے اور انہیں حلال کھلاتا ہے، اور ہر دن یونہی خوشی خوشی گزار دیتا ہے۔کبھی کوئی مدد کرنا چاہے بھی تو کسی کی مدد لینا گوارا نہیں کرتا۔حالانکہ وہ ان پیسوں سے اپنی کوئی معصوم سی خواہش پوری کر سکتا ہے۔لیکن اس کا دل اتنی سی عمر میں بچپن کی حدود پھلانگ کر بہت بڑا ہو گیا ہے۔واقعی کتنا عظیم ہے یہ چھوٹا سا انسان.!!

کندھے پر کچرے کا تھیلا لٹکائے،اس چھوٹے سے بچے کے نقوش پا دیکھتے ہوئے نہ جانے میں کب تک سوچتا ہی رہا یہاں تک کہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔