انگریزی فوبیا

تحریر:زبیر طیب( براۓ بنات عائشہ)
انگریزی بولنے کے شوق نے ہمیں پھسٹڈی قوم بنا دیا ہے ۔کیا سیاستدان ، امرائ، طلبائ‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ باوردی اور بے وردی چھوٹے بڑے افسران ،کبھی کبھار دیہاتوں میں جانے والے شہری اور شہروں میں نوکری کرنے والے دیہاتی، ماڈرن بننے اور نظر آنے والی خواتین‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ نظر آنے کے خواہش مند بی اے فیل اورمیٹرک پاس خواتین و حضرات دوران گفتگو انگریزی کے الفاظ یا ٹوٹے پھوٹے جملے استعمال کر کے دوسروں پر دھاک بٹھانے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں۔اب تو گھروں میں بھی آپس میں بات کرتے وقت زیادہ تر یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ہماری گفتگو میں انگریزی کے زیادہ سے زیادہ الفاظ اُبلیں۔ اس کی ایک وجہ ’’احساس کمتری‘‘ ، دوسری ’’ذہنی غلامی‘‘ اور ’’تیسری فیشن‘‘ ہے۔ انگریزی بولنے کے شوقینوں کی اکثریت عموماً اس وقت انگریزی جھاڑتی ہے جب محفل میں انگریزی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم حضرات و خواتین موجود ہوں۔ تقریبات میں عورتوں کی انگریزی سن کر لطف دوبالا ہو جاتا ہے انکی گفتگو میں مختلف Coloursکے نام Beautiful‘ Hasband‘ Stylish‘ Actualy‘ Cute‘ Hair‘ Busy‘ You know‘ Engagementاور Selfishجیسے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں لیکن زیادہ پرلطف چیز وہ انداز ہے جو عورتیں آپس میں ملتے اور بات چیت کرتے ہوئے اپناتی ہیں ۔ الفاظ کو لمبا کر کے یا دبادبا کر یا پتلی آواز میں چیختے ہوئے ادا کرنا بھی انگریزی فیشن کا حصہ ہے۔
افسر اپنے ماتحت سے گفتگو کرتے ہوئے : دیکھوyoungman یہ competitionکا دور ہے تم خوش قسمت ہوu are lucky کہ تمہیں jobمل گئی۔کل اسی خوشی میں میرے house میں مٹھائی کے 5  ڈبیز بھیج دینا۔
جب شہری بچے دیہات میں جاتے ہیں تو دیہاتی بچوں سے ان کی گفتگو کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ نومی ﴿شہری بچہ﴾ عطائ اللہ ﴿دیہاتی بچہ﴾ سے: میرے dadyاور میری mamaنے مجھے بہت سارے toys لے کر دئیے ہیں میرے پاس ایک aeroplane‘ ایک بھالو‘ دوball‘ ایک train اور ایک pianoہے اور بھی میرے پاس بہت سارے toys ہیں۔ میرے dadyاور mamaمجھے zoo بھی لے کر گئے تھے وہاں میں نے elephant‘ tigar‘ lion‘deer‘ bearاور parrot اورpigeonاور zebra اورrabitاور monkiesاور ،اور بہت سارے animalsدیکھے تھے۔ عطائ اللہ نومی سے: میرے ابا نے بھی مجھے اتنے سارے ’’کھڈونڑیں‘‘ ’’گھن‘‘ کے دئیے ہیں‘ میرے پاس ’’چھنڑکراں‘‘ ٹرکٹْر ’’داند‘‘ چابی سے چلنے والا اوٹھ’’بھی ’’گھن کے دیا ہے۔ میں ابے کے ساتھ’’جنگل ‘‘ میں گیا تھا ادھر اتنا وڈا ’’گدڑ‘‘ ہم نے دیکھاتھا’’وہاں‘‘ پر چڑیاں‘ طوطے‘ ’’کبوتر‘‘ چوہے‘ لومڑیاں اور تتر بھی ہوتے ہیں۔ ادھر ہم نے بیر بھی کھائے تھے۔
شہری عورتیں جب دیہاتوں میں جاتی ہیں۔تو ان کی گفتگو کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ بچوں کے exames ختم ہو گئے تو ہم نے سوچا گاؤں کا چکر لگا آئیں، بچے بھی تھوڑے freshہو جائیں گے‘ بیچارے ہروقت studyکرتے رہتے ہیں، آج کل books اتنی difficult ہیں۔ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آتی، ان کے dady کو بھی time نہیں ملتا office سے واپس آتے آتے 8 بج جاتے ہیں ، پہلے ہم نے ان کی Tutation لگوائی تھی لیکن آنے جانے میں time بہت Waste ہوتا تھا اب وہ بھی چھڑوا دی ہے، آج کل اتنا سخت competition ہے توبہ توبہ۔ آپ لوگوں کا washroom کدھر ہے؟﴿دیہاتی عورت﴾ اْدھر مہمان بیٹھے ہیں‘ آپ اِدھر’’ویہڑے‘‘ میں ہی بیٹھ جائیں۔ میں washroomکا پوچھ رہی ہوں‘latrine...toilet۔ اچھا اچھاخالہ جی وہ "letreen"تو ہمارے گھر میں ہے، بس پانی باہر نلکے سے لیتی جانا جی ۔پانی u mean water۔ہمارے ہاں تو water بھی اندر ہی available ہوتا ہے۔
کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہم ایسی ذہنی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے راہ فرار مشکل نظر آ رہا ہے۔نہ صرف ہم خود نقالی میں پیش پیش ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی فخر سے الٹی سیدھی انگریزی اینگتا دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔اب تو بعض بچوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہماری مادری زبان کونسی ہے۔یہاںتک کہ بعض حضرات تو اپنی مادری زبان کو بولنے میں شرم اور عار محسوس کرتے ہیں۔زبان کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔اس لئے ہمیں کسی سے متاثر ہو کر اپنی زبان اپنی بول چال بدلنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بری وبا سے بچائے۔آمین ثم آمین

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔