مان جائیے ورنہ

تحریر: زبیر طیب...خاص برائے’’ پکار‘‘ ﴿ جامعہ عثمانیہ لاہور﴾
سڑک پر گاڑی کو غلط لائن پر چلا کر دیکھیں۔ جہاز کو ہوا میں کسی فضائی قانون سے آزاد اڑائیں، قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ حادثہ ہی ہو گا۔ دفتر کے اوقات میں سو جائیں یا پھر سونے کے اوقات میں دفتر پہنچ جائیں، دونوں صورتوں میں نقصان ہی ہو گا۔ سب اس بات کو سمجھتے ھیں اور اسی لیے ہر شعبے کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن فطرت کے قوانین تمام دوسرے قانونوں سے اٹل ہیں۔ دنیا میں بھی صرف وہی قانون انسانیت کیلئے فائدے مند ہیں جو قانون فطرت کے ہم آہنگ یا کم از کم بہت مماثلت رکھتے ہوں۔ فطرت کے قوانین سے ٹکرانا اور مقابلہ ممکن ہی نہیں، لیکن آج کا مسلمان فطری قوانین سے ٹکرا کر اپنے ماضی کی عظمت کی طرف پیٹھ کئے کھڑا ھے۔ مسلمان کی تخصیص اسلئے کہ اسلام کا ماننے والا مسلمان ہے اور اسلام دین فطرت ھے۔ اسلام نے اسی بات کا حکم دیا ہے جسں میں انسانوں کی بھلائی ہے۔ یہی وجہ تھی جنہوں نے اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا، اس کائنات کے اسرار ان پر کھلتے چلے گئے۔ ماضی کی عظمت اور تمام علوم و فنون پر مسلمانوں کی دسترس ایک ایسی حقیقت ہے کہ اپنے کچھ لوگ بھی مغرب کے نشے میں ڈوب کراس کو ایک ڈائیلاگ سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس حقیقت کو جاننے والے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
مسلمان وہ واحد قوم ہیں جن کے پاس فطرت کے قوانین سے فائدہ اٹھانے کا ایک مکمل نظام موجود ھے۔ اس نظام کا نام اسلام ہے اور اس سے مکمل مستفید ہونے کیلئے ایمان ضروری ہے جس کی امین صرف مسلم قوم ہی ہے۔
اسلام قانون فطرت ہے اور اس کا نظام قرآن کریم ہے اور قرآ ن پاک کی تشریح حدیث ہے اور اس تشریح کو سمجھنے کیلئے سورہ فاتحہ کی آیت صراط الذین انعمت علیھم پر عمل کرنا ہو گا یعنی انعام یافتہ لوگوں کے طریقے پر چل کر اپنی عام زندگی میں اس تشریح کو اپنانا ھو گا ، تب ہی مسلمانوں کی اپنی زندگیوں میں اور پوری دنیا پراسلام کے فیوض و برکات ظاھر ہو سکیں گے۔ ماضی میں مسلم قوم نے جو اسلامی فیوض و برکات حاصل کئے، آج کے جدید علوم فنون اسی کی مرہون منت ہیں۔ ایسے نہیں کہ کچھ مطلب ہوا تو اسلام کے پاس آ گئے، باقی ساری زندگی میں اسلام سے پرھیز۔ انسانی زندگی جہاں جہاں جس بھی درجے پر اسلامی قوانین سے ٹکراتی ہے، اسلام کی حقانیت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ آج سب پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جبکہ پیسے سے متعلقہ آج تک سارے نظام اور موجودہ سودی نظام ناکام ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر بنکوں کے دیوالیوں کا سیلاب سب نے دیکھ لیا۔ ترقی یافتہ کہلانے والے ملکوں کی عوام کا بڑھتا اضطراب اور ان کے بڑھتے مسائل ، ان کے ملکوں میں رائج نظاموں کی ناکامی کا اعلان کر رہے ھیں۔
 صرف اسلامی نظام ہی ہے جس میں امیر کے ساتھ غریب بھی سکون سے سوتا ہے۔میرا موضوع عام مسلمانوں کی عام زندگی میں اسلام کو نافذ کرنا ہے۔ ایک بچے کی مثال سے شروع کرتے ھیں۔ دو سال تک ماں کا دودھ بچے کا حق ھے، اسلامی قانون ھے۔ کیونکہ ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی دوسری چیز بچے کو مطلوبہ طاقت نہیں دے سکتی۔ آج کے بچے اکثر ماں کے دودھ سے محروم ڈبے کے دودھ پر پلتے ھیں۔ جسکی وجہ سے بچے کی صحت پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بیٹھ کر کھانا پینا اسلامی قانون ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے پر جو بیماریاں انسان پر حملہ آور ھوتی ھیں، میڈیکل سائنیس ان کی تصدیق کر رھی ھے۔ کھانے پینے میں صفائی کے اسلامی معیار کو چھوڑنے کے نتائج خصوص طور پر بازاری ہوٹلوں میں مشاھدہ کئے جا سکتے ہیں۔
اسلامی تاکید ھے آٹا ان چھنا کھایا جائے۔ ایک معمولی سی بات لیکن عمل نہ کرنے سے قبض کا دروازہ کھل جاتا ھے جو سب بیماریوں کی ماں ھے۔ داڑھی ایک مٹھی رکھنا سنت ھے لیکن رکھتے ہی نہیں اور اگر رکھیں بھی تو ایک مٹھی سے کم یا پھر بہت زیادہ ۔ داڑھی رکھنے کے جسمانی اور جنسی صحت پر مثبت اثرات کی رپورٹس آئے بہت دیر ھو چکی۔ بھوک لگے تو کھائیں اور بھوک رھتی ہو تو چھوڑ دیں، یہ بیماریوں سے حفاظت کا قیمتی نسخہ ھم نے چھوڑ دیا اور آج طبی محقیقین بہت ساری بیماریوں کی جڑ اسی بات کو قرار دیتے ھیں۔ فرد سے فرد کے تعلقات میں اسلامی ھدایات کا علم نہ رکھنے کا خمیازہ، ساس بہو، والدین اور اولاد، خاوند بیوی،اپنے کاروبار میں، دفتری ملازمین کی آپس میں ناچاقیوں میں ہم بھگت رھے ھیں۔ پیسہ کمانا چاھتے ھیں، اسلامی قوانین کو پس پشت ڈال کر محنت کرتے ہیں بے برکتی عام ہے۔ سارا دن محنت کرتے ھیں جس ﴿ جل جلالہ﴾ نے رزق دینا ہے اس ﴿ جل جلالہ﴾ پر توکل کی دولت سے خود کو محروم کر رکھا ہے۔ بھول گئے ہمیں ایک مسلمان کو روزی تلاش کرنے کی سنت ادا کرنا ہوتی ہے اور فرائض، واجبات کے اہتمام کے ساتھ ، لیکن رزق اللہ کریم جل جلالہ کی مرضی ہی سے ملتا ھے۔ توکل، بھروسہ ،امید یقین اللہ کریم ﴿جل جلالہ﴾پر رکھنی ھوتی ھے۔ لیکن آج اکثریت کی نظر اور خیال کا حال ایسا نہیں ھے۔ ایک مسلمان کی سیاسی ذمہ داری کیسی ھونی چاھئے، نہ جاننے کا نتیجہ سارا ملک بھگت رھا ھے،بڑی بڑی ڈگریوں کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی سیکھ لیا جاتا تو اچھا بلکہ سب اچھا ھو جاتا لیکن ھم ایسا نہیں کرتے۔
آج کا مسلمان چاھتا ھے، کہ وہ میڈیا کی پر پیش کردہ چیزوں کو دیکھے، مغربی لباس پہن کر معزز بنے اور اور اپنے سارے کنبے کے ساتھ مغربی طرز زندگی میں اعلٰی مہارت حاصل کرے اور جب بیمار ھو، دوائیاں کھا لے، اگر پھر بھی آرام نہ آئے توآخر میں اللہ جل جلالہ کی یاد آتی ھے۔ گویا جب تک مصیبت نہیں آئے گی ھم اللہ جل جلالہ کو یاد نہیں کریں گے۔ نیتجہ کیا ھے. پریشانی ، ذلالت صرف اس زندگی میں نہیں اگلی زندگی میں بھی۔ لیکن جنہوں نے اسلام کو سمجھا ھے، اپنی عام زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کی ھے وہ ھر جگہ کامیاب ھی کامیاب ھیں۔ کئی سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ھے اور ھمارے آج کے دور میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں ، اگر ھم دیکھنا اور سمجھنا چاھیں۔
اگر ھم اپنی عام زندگی میں، اپنی معاشرتی زندگی میں، اپنی سیاسی ذمہ داریوں میں ، اس زندگی کے بعد میں آنے والی زندگی میں کامیاب ھونا چاھتے ھیں تو گھر میں، دفتر میں اور اس معاشرے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلم امت کی کامیا بی کیلئے سب کو اپنی ذات پر اسلام نافذ کرنا ھو گا اور کسی کہ یہ بات نہیں ماننی تو عرض ھے مان جائو ورنہ۔۔۔۔ خسارہ ھی خسارہ ھے۔
٭.٭.٭
بشکریہ ''  پکار ''

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔