آج نہیں تو کبھی نہیں

تحریر : زبیر طیب
سب کچھ اس کے سامنے ہوا تھا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔اس کے سامنے قرآن مجید کو جلا دیا گیا تھا اور وہ بندوق ہاتھ میں پکڑے ایک نمک خوار کی طرح بس دیکھتا ہی رہ گیا۔اس کے ذہن میں اک طوفان برپا تھا۔اسکے دل کی حالت قابل رحم ہو گئی تھی۔سانس جیسے رک رک کر آ رہا تھا۔آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی اس کے رخسار کو بھگو رہی تھی۔اس کے ہاتھ قرآن کے جلے اوراق دیکھ کر کانپ رہے تھے۔ٹھنڈی سرد ہوا چلنے کے باوجود بھی اس کے پاؤں تلے پسینہ آ رہا تھا۔اسکا نام عبد الرحمن تھا۔وہ افغان فوج میں بھرتی ہوا تھا۔اسکی یہ حالت کبھی ایسی نہ ہوئی تھی۔اسے قرآن کو شعلہ دکھاتے وہ خبیث گورے نہیں بھول رہے تھے ،جو قہقہے لگا رہے تھے اور مسلمانوں کی بے حسی پر مسکرا رہے تھے۔حالانکہ اس سے قبل وہ ان امریکیوں کے ساتھ کئی آپریشنز میں حصہ لے چکا تھا۔ان کے ساتھ بیٹھتا اور کھانا کھاتا تھا۔ان کے ساتھ باتیں کرتا اور اپنی نوکری کی خاطر ان کا ہر جائز و ناجائز حکم بجا لاتا تھا۔لیکن آج نہ جانے اس کے دل کی حالت کیوں بدل گئی تھی۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس حالت میں وہ مر گیا تو لوگ نہ جانے اسے کیا کیا نام دے کر یاد کریں گے۔کوئی راشی کہے گا تو کوئی ظالم،کیوں نہ اپنے آج کو بدل دیا جائے تاکہ دنیا اس کے بارے میں اچھاسوچے،اسے مسلمان سمجھے،اسے رب اور دین کی خاطر مر مٹنے والا کہے۔

اسے قرآن مجید کے یوں جلنے سے یاد آ گیا تھا کہ وہ کسی مسلمان کا بیٹا ہے۔پیدا ہوتے ہی اسکے کانوں میں اذان دی گئی ہے۔یہ اس رب کا کلام ہے جس رب نے اسے اور اسکے ماں باپ کو پیدا کیا ہے۔ آج وہ قرآن شہید کر دیا گیا ہے جسکی تعلیم اس کے ہوش سنبھالتے ہی کرائی گئی تھی۔آج اس سے یہ سب دیکھ کر برداشت نہیں ہو رہا تھا۔آج پہلی بار انہیں ان امریکیوں کے وجود سے نفرت ہونے لگی تھی۔وہ ان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگا تھا۔اسکے اندر کا مسلمان جاگ گیا تھا۔اسے یاد آ گیا تھا کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ہمارا ایک خدا ہے۔ایک رسول ہے۔ایک آسمانی کتاب ہے۔یہ سب سوچ کر اس کا خون کھولنے لگا تھا۔دماغ میں چنگاریوں سے شعلے جنم لینے لگے جنہوں نے بعد میں انتقام کا روپ دھار لیا۔اسے احساس ہو گیا تھا کہ اگر اس کا دین محفوظ نہیں۔اگر اسکے رب العالمین کی کتاب کی توہین کر دی گئی تو اس کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اسکا وجود اس زمین پر صرف ایک بوجھ کے سوا اور کچھ نہیں۔

اس واقعہ کو چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑ چکی تھی۔اس کے مقصد کے آگے رکاوٹیں بہت تھیں۔اسے بار بار یہ خیال پریشان کرنے لگتا کہ اس کے ماں باپ،بہن بھائی اسکے اپنے بچے سب اسکی راہ تک رہے ہوں گے۔لیکن دوسری طرف اس کا چوبیس گھنٹے پہلے کا مشاہدہ اسے کسی پل چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا۔کہ آج نہیں تو پھر کبھی نہیں۔چنانچہ اس نے بندوق اٹھائی،دو رکعت نماز پڑھی،رب سے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔اس نے اپنی دعا میں کچھ نہیں مانگا صرف توبہ مانگی۔کہ مالک معاف کر دے۔مالک بہت دیر سے خیال آیا۔لیکن تب تک تیرا قرآن جل چکا تھا۔مالک معاف فرما دے۔مالک معاف فرما دے۔مالک فرما دے۔وہ زار و قطار رو کر رب کو منا رہا تھا۔کچھ دیر تک دعا مانگنے کے بعد وہ اٹھا اور نیٹو کمانڈر کے کمرے میں پہنچ گیا جہاں ایک نیٹو میجر اور کرنل بیٹھے تھے۔اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور دونوں کے ناپاک وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔اسے توبہ کا ایک موقع مل گیا تھا۔لیکن اسکی توبہ کے لئے قرآن کو اپنی قربانی دینی پڑی تھی۔قرآن کی خاطر ہمیں اپنا آپ مٹا ڈالنا چاہیے تھا لیکن آج قرآن خود اپنا آپ جلا کر ہمیں تحفظ دے رہا تھا۔ہمارے دلوں کی حالت بدل رہا تھا۔ہمیں سیدھی راہ کی طرف بلا رہا تھا۔

ہم مسلمان بھی ہیں۔ایک خدا،ایک رسول،ایک کتاب کو مانتے بھی ہیں اور ہم مرنے کے بعد جی اٹھنے اور خداکے حضور پیش ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔لیکن سچ سچ بتلائیے کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم نے اپنے دینِ اسلام کے لئے کیا کیا۔لوگ ہمارے مرنے کے بعد ہمیں کس طرح یاد کریں گے۔کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم کس رخ جا رہے ہیں۔جس طرح روزی کما رہے ہیں ،جس طرح دھوکہ ،فریب اور لوٹ مار ک کر رہے ہیں،ہم جس طرح جھوٹ ،غیبت اور چغلیاں کھا رہے ہیں۔آج ہم زمین کے اوپر بڑے اکڑ کر چلتے ہیں لیکن کل کو ہم جب چھ ضرب دو فٹ کی قبر میں چلے جائیں گے تو کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ بڑا راشی تھا ،بڑا مکار تھا،بڑا کرپٹ تھا،فلاں کی جائیداد ہڑپ کر گیا،پیسوں کی خاطر ضمیر بیچتا تھا،سر عام اسلام دشمنوں کا ساتھ دیتا تھا،بے نمازی تھا،زناکار تھا،مجبوروں کی عصمتوں سے کھیلتا تھا،غریبوں سے چھت چھینتا تھا،یاد رکھیں لوگ ہمیں وہی کہیں گے جو ہم آخری وقت ،آخری پل تھے۔اور جب حشر کا میدان لگا ہو گا،اعمال نامہ آئے گا،تو وہ جو ساری زندگی گناہ کرتے رہے،نہ کبھی دین کا احساس ہوا اور نہ توبہ نصیب نہ ہوئی تو ان کے لئے رب کے ہاں بڑا دردناک عذاب ہے۔اور وہ جو گناہ گار تھے،قاتل تھے،زناکار تھے،خطار کار تھے لیکن سچی توبہ نصیب ہو گئی ،تو اللہ نہ صرف ان کو بخش دے گا بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا تو اس روز بہت سے لوگ پچھتائیں گے کہ کاش ہم بھی احساس کر لیتے،ہم بھی خود کو بدل لیتے،خود کو رب کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنا لیتے ،کاش ہم بھی راہ راست پرآ جاتے،لیکن اس دن صرف پچھتاوا ہو گا اور آج جب ہم زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں،لیکن ہم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اگلا سانس ہم لے پائیں گے یا نہیں،ہم کل کا دن دیکھ پاتے ہیں یا نہیں اور ہمیں بھی عبد الرحمن کی طرح توبہ اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا موقع ملتا ہے یا نہیں۔

اس لئے ہمیں اپنے گناہوں،بد اعمالیوں ،خطاؤں کو یہیں روکنا ہو گا۔ہمیں توبہ کا دروازہ تھامنا ہو گا،ہمیں کعبے کے سامنے جھکنا ہو گا،ہمیں نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ناطہ جوڑنا ہو گا،ہمیں اپنا آج درست کرنا ہوگا۔اس سے پہلے کہ قرآن کو ایک بار پھر اپنی قربانی دینی پڑی، اپنے اوراق جلوانے پڑیں،کسی مسجد کو اپنا آپ شہید کروانا پڑے ، دلوں کو جھنجھوڑنے کے لئے ، دینِ اسلام کی طرف واپس لوٹنے کے لئے، اپنے مذہب کی عزت کو دلوں میں راسخ کرنے کے لئے پھر کبھی کسی قرآن کو اپنی قربانی نہ دینی پڑے۔آج سے ہم سب عزم کریں کہ اب تک زندگی میں جو کچھ ہو چکا،جو غفلت ہوئی،رب ذوالجلال سے توبہ کریں اور آئندہ اپنی زندگی کو سنت کے مطابق بسر کرنے کا عزم مصمم کر لیں۔دین اسلام کی خاطر ،قرآن کی خاطر ،نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اور رب کی خاطر کٹ مرنے کا مضبوط ارادہ کریں۔تو انشائ اللہ کفار کو کبھی ہمت نہیں ہو گی کہ وہ ہمارے مذہب سے کسی قسم کی چھیڑ خانی کر سکے۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔