ہماری زندگی

 ویسے تو تعارف بڑے لوگوں کا ہی پوچھا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے اور پڑھا جاتا ہے اور میں ٹھہرا ایک اجنبی، چھوٹا سا انسان جس کا کویٔ تعارف نہیں۔ لیکن چونکہ بلاگ کے لۓ تعارف لکھنے کی رسم ضروری ہے اس لیے اپنی زندگی کی چند یاد داشتیں لکھ رہا ہوں۔ تاکہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کروں کہ اس نے مجھ پر بے پناہ احسان فرمایا، نعمتیں اتنی دیں کہ کویٔ شمار نہیں، میری کوتاہیوں، خامیوں اور گناہوں کے باوجود مجھ پر انعام فرمایا۔
چند لفظوں میں تعارف پوچھنا ہو تو یہ ہے میرا مختصر تعارف
میرا تعلق لاہور سے ہے لیکن اسے لہور نہیں کہتا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگوں کی طرح اس شہر ستم گر میں رہنا اچھا لگتا ہے۔  اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ بازیچہ ء اطفال ہے دنیا میرے آگے، لیکن میرا پسندیدہ کھیل'' کرکٹ ''نہیں بلکہ'' محسوس کرنا  ''ہے۔ جب حیرت کے مقامات سے گذرتا ہوں تو برف ہو جاتا ہوں لیکن جب حقائق کی حرارت پڑتی ہے تو پانی بن جاتا ہوں۔
 
 قدرےتفصیلی تعارف
نامِ نامی
نام زبیر ہے ۔پیار سے ''زوبی'' کہتے ہیں ۔پورا نام زبیر طیب ہے۔ ۲۰ نومبر ۱۹۸۹ کو اس فانی دنیا میں بہاولپور کی سرزمین پر  قدم رنجا  فرمایا۔ میرے محترم بزرگ پرنانا جی  رحمہ اللہ نے نام "زبیر" تجویز فرمایا  ۔ماں جی نے نام '' ارسلان '' رکھا۔ یوں ہم چند دن ''بے نام''  رہ کر  ''با نام " ہوگۓ۔لیکن خود کو '' زبیر '' ہی مشہور کر ا پاۓ۔  بچپن کھیل کود میں ماں باپ کو ستاتے گزر گیا۔ اب یا د آتا ہے تو خود کو '' کوسنے '' لگتا ہوں۔
جسامت
 جسم دبلا پتلا سا، آنکھیں بھوری  لیکن عینک سے کوسوں دور ،  رنگ سانولا، اور چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سنت رسول ﷺ سے سجا چہرہ ہے۔الحمد للہ
ابتدایٔ تعلیم

ابتدایٔ تعلیم نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن مجید گھر کے ساتھ ہی موجود ''مدرسہ ناصر العلوم دھنوٹ '' سے حاصل کی۔ ۵  کلاسیں سکول کی بھی اسی زمانے میں پاس کر کے ہم امی ، ابو کی نظروں میں سرخرو ہو گۓ۔ دھنوٹ ضلع لودھراں کے اس اسکول کا نام '' بخاری پبلک ماڈل سکول '' تھا۔
حفظ کی سعادت
حفظ کی عظیم الشان سعادت قسمت میں لکھی تھی ۔ لاہور آنے کے بعد ابو جی نےدینی تعلیم کو مزید آگے بڑھانے کے لیے '' جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور '' میں داخل کروا دیا۔  یہ بڑے مشکل دن تھے اورسخت آزماءش  والے بھی۔مسافرت کی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا ۔ اللہ رب العزت نے بڑی کرم نوازی فرمایٔ اور وقت گزر گیا۔ کم و بیش ایک سال آٹھ ماہ میں حفظ مکمل کر کے ماں، باپ کے ارمانوں کو پورا کیا۔ میری زندگی کے سب سے انمول دنوں میں سے ایک دن میرے حفظ کی تکمیل کا دن بھی ہے۔ جو ہمیشہ ذہن کے مخصوص گوشے میں نقش ہو کر رہ گیا۔ خوشیوں سے بھر پور ایک مکمل خوبصورت دن۔ سن؁۲۰۰۰ءستمبر ۲۸ اور دن تھا   بدھ کا۔
درس نظامی کی تعلیم
حفظ قرآن کریم کے بعد والدین نے کافی سوچ و بچار کر بعد سکول میں داخل کروا دیا۔ صرف ۳   ماہ میں آٹھویں کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر کے  اپنے نانا جی رحمہ اللہ کے حکم  اور مشورہ پر قرآن کریم کی حفظ  دہرایٔ  کے لیے رحیم یار خان کے مشہور و معروف مدرسے '' جامعہ تفسیریہ شمس العلوم '' میں داخل ہو گیا۔ کم و بیش ۶ ماہ میں دہرایٔ مکمل کر کے واپس لاہور آ کر '' جامعہ عثمانیہ لاہور '' میں درس نظامی کی تعلیم کے لیے ''  اولیٰ  ''  میں داخل ہو گیا۔
مادر علمی جامعہ عثمانیہ
 جامعہ عثمانیہ لاہور ، جامعہ اشرفیہ لاہور کی ہی ایک شاخ  ہے ، مولنا موسیٰ روحانی بازی اور صوفی سرور صاحب مدظلہ کے خصوصی شاگرد حضرت مولانا شاہد صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ صدر جامعہ ہذا ہیں۔ بندے کے ساتھ بہت ہی شفقت اورخصوصی  محبت کا معاملہ پہلے دن سے ہی  فرما نے لگ گۓ تھے۔کوتاہیوں پر شفقت سے سمجھاتے اور کامیابیوں پر بے پناہ حوصلہ افزایٔ فرماتے۔دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے چلے گۓ  اور مہینوں نے سالوں میں خود کو تبدیل کر لیا۔ اسی دوران اولیٰ، ثانیہ ،ثالثہ، رابعہ، خامسہ، تک تعلیم حاصل کی۔ ساتھ ہی دنیاوی تعلیم کو ہلکا پھلکا سلسلہ جاری رہا اور بندے نے میٹرک کے بعد دو سال سانیٔس کی تعلیم میں بھی کچھ جھک ماری( باہر کی دنیا اس "جھک '' مارنے کو FSC کہتی ہے)۔ جامعہ عثمانیہ شجاع کالونی لاہور کا اپنا مادر علمی سمجھتا ہوں۔یہیں سے ہی میرے لاشعور نے شعور کی منزل طے کی اور بہت کچھ پایا۔
اساتذہ جامعہ عثمانیہ
اس جامعہ میں  حضرت مولانا نصیر احمد صاحب کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ دھیما لہجہ، پروقار انداز، نرم انداز گفتگو، طلبہ سے بے حد شفقت و محبت کا معاملہ کرنا۔ بندہ کو تو ہمیشہ ان کے سبق کا انتظار رہتا۔'' ہدایۃ النحو '' اور '' نورالانوار '' کے اسباق  جو انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے پڑھاۓ آج بھی بہت یاد آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے شایان شان اجر عظیم نصیب فرماۓ۔ آمین۔
حضرت مولنا عبد الرحمن صاحب  کی شخصیت بھی بڑی پیاری تھی، ان کے درس کی عجب ہی شان تھی۔ آج بھی سوچتا ہوں کبھی تو ہونٹوں کے کنارے خودبخود پھیل کر چوڑے ہو جاتے ہیں۔ مولنا یوسف صاحب کی بارعب شخصیت آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔
اعتراف و شکریہ
 اللہ رب العزت میرے سب اساتذہ کو اپنے شایان شان اجر عظیم عطا فرماۓ۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں انہی کے صدقے اور محنت و شفقت کا صلہ ہوں۔ مجھے اس کا کھلے دل سے اعتراف ہے۔ شکریہ جملہ اساتذہ کرام '' جامعہ عثمانیہ شجاع کالونی لاہور ''خصوصا حضرت مولنا شاہد صاحب حفظہ اللہ کا بے حد شکریہ اور جزاک اللہ کہ آپ نے میری دینی اور دنیوی ہر معاملے میں رہنمایٔ فرمایٔ اور سرپرستی فرما کر مجھ پر احسان عظیم فرمایا۔
'' درجہ سادسہ ''لاہور ہی کے ایک اور مدرسہ جامعہ حسینیہ میں مکمل کیا  یہاں پر بھی بزرگ عالم دین مہتمم مدرسہ ہذا مفتی برکت اللہ صاحب حفظہ اللہ نے بہت شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا۔ آپ مجھے پیار سے '' لیڈر '' فرمایا کرتے تھے۔

کراچی آمد
میری زندگی کے سب سے اہم فیصلوں میں ایک فیصلہ جس نے میری زندگی کا رخ ہی تبدیل کر دیا کراچی جانے کا فیصلہ تھا۔ اپنی بقیہ تعلیم کے لئے مجھے کراچی کا چناؤ کرنا بے حد مشکل تو لگا مگر عزیزوں، دوستوں اور گھر والوں نے ہمت بندھائی اور میں کراچی روانہ ہو گیا۔ لاہور سے کراچی ایک لمبی مسافت اور ایک اجنبی مسافر جہاں اسے جاننے والا کوئی نہیں۔
دارالعلوم کراچی اور ایک دعا
دعاؤں کے پورا ہونے کا یقین کامل یہاں آ کر نصیب ہوا۔ دارالعلوم کراچی میں پڑھنا میرا خواب تھا ۔اور یہ خواب شاید کبھی پورا نہ ہوتا اگر میں نے کبھی انجانے میں ایک دعا نہ مانگی ہوتی۔ جامعہ دارالعلوم میں داخل ہو کر پہلی بار نماز پڑھتے ہوئے جب اچانک نظر حضرت شیخ تقی عثمانی حفظہ اللہ پر پڑی تو وہ دعا یاد آ گئی جو میں نے بچپن میں بے ساختہ مانگی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ حفظ قرآن کے زمانے میں ایک دن پورے جامعہ میں شور برپا ہو گیا کہ کوئی بہت بڑے بزرگ آئے ہوئے ہیں۔ ان کا نام ’’ تقی عثمانی ‘‘ ہے۔ میں بھی مسجد کی طرف بھاگا اور ہجوم کے ساتھ شامل ہو گیا۔ طلباء مسجد کی طرف بے تحاشا بھاگے چلے جا رہے ہیں اسی دوران میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور میں اوندھے منہ زمین پر آ رہا۔ پاؤں سے ہلکا سا خون بھی نکلنے لگا۔ سب لوگ مسجد میں پہنچ گئے اور میں گرنے کی وجہ سے آہستہ قدموں کے ساتھ چلتا ہوا مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گیا۔ اور دور سے بس ایک جھلک چھوٹے قد اور قدرے لال داڑھی والے اس بزرگ کی دیکھی اور بے ساختہ دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ آج میں ان سے مصافحہ نہیں کر سکا اور قریب سے دیکھ بھی نہیں سکا۔ آپ مجھے ان کے مدرسے میں ضرور داخل کروائیے گا ۔ الفاظ اور ہو سکتے ہیں لیکن مفہوم بہرحال یہی تھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ دعا جو مانگی وہ بھی یاد نہیں آ رہی۔ سالہا سال گزرنے کے بعد جب اللہ رب العزت نے مجھے شیخ تقی عثمانی حفظہ اللہ سے گلے ملنے کی سعادت بخشی تو دعا یاد آ گئی۔
دارلعلوم کراچی کی معطر و منور فضاؤں میں گزرے ماہ و سال
مجھے اپنے آپ پر اعتماد یہاں آ کر نصیب ہوا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں پہلے کچھ بھی نہیں تھا اور اب زندگی کی اونچ نیچ کا پتہ چلا ہے۔ دارالعلوم کے اس سرسبز و شاداب گلشن میں اگرچہ میرا دورانیہ بہت کم مگر میں نے ان دو سالوں میں اپنی زندگی کے سب سے خوبصورت دن گزارے۔ ہر لحاظ سے وہ بھرپور دن تھے۔ تعلیمی، اخلاقی اور صحیح تربیت کی سمجھ بوجھ یہیں ملی۔ شفیق اساتذہ کرام اور بزرگان دین کو دیکھنے، سننے اور ان کی تعلیمات کو ذہن نشین کرنے کے مواقع یہیں نصیب ہوئے۔ یہ دو سال پلک جھپکتے گزر گئے اوردورہ حدیث سے فراغت کے بعد میں ایک دن اپنا سامان اٹھائے واپس بھی جا رہا تھا۔ آنکھیں پلٹ پلٹ کر اس گلشن کو دیکھ رہیں تھیں اور دل ان گنت یادیں لیے مجھے بے قرار کر رہا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ فراغت کی خوشی مناؤں یا دارلعلوم سے جدائی پر آنسو بہاؤں۔ اسی لیے دونوں کام ساتھ ساتھ جاری تھے۔ اور آخر کار میں دارالعلوم کی حسین یادیں دل میں بسائے میں رخصت ہو گیا۔
جن اکابر علماء کرام سے اجازت حدیث حاصل ہے۔
 حضرت شیخ سلیم اللہ خان حفظہ اللہ تعالیٰ..حضرت شیخ مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ.. حضرت مفتی رفیع عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ ..حضرت مولنا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ..
تخصص فی الافتاء
اپنے بزرگوں کے حکم پر اپنے ننھیال بہاولپور میں واقع جامعۃ الصابر میں تخصص فی الافتاء کے لئے داخل ہو گیا۔ یہاں کا جہادی ماحول اور تعلیم و تربیت کے اعلیٰ ذوق کی بناء پر جلد ہی یہاں پر دل لگ گیا۔ اسی دوران میری تربیت کا زیادہ تر بوجھ میرے محترم ماموں جان نے اٹھایا۔
وہ شخصیت جنہوں نے مجھے لکھنا سکھایا۔
بچپن سے ہی حیا و شرم کا مادہ کچھ زیادہ ہی میرے اندر موجود رہا۔ جس کی وجہ سے بہت کچھ دل و دماغ میں دبا رہا۔ بھیڑ میں بیٹھنے اور سب کے سامنے بات کرنے سے جھجکتا رہا۔ اسی خامی کی وجہ سے نہ کبھی تقریر کرنے کی ہمت ہوئی اور نہ ہی کبھی تحریر کا حوصلہ پیدا ہوا۔ میرے تخصص فی الفقہ کے سال میرے محترم ماموں جان حضرت مولنا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قیمتی وقت میں سے مجھے بھی کچھ لمحے عطا کیے۔ مجھے ہمت اور حوصلے کا درس دیا۔ قلم اور تحریر کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ مجھے سخت تھکاوٹ کے باوجود بلاتے اور مکمل رہنمائی فرماتے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہوتا انہیں روز دکھاتا اور وہ حوصلہ افزائی فرماتے۔ میری پہلی تحریر پر خوش ہو کر حوصلہ افزائی کی خاطر ۱۰۰) ) روپے انعام سے نوازا تو میں خوشی سے بے قابو سا ہو گیا۔ نہ جانے کتنی بار اس تحریر کو پڑھ ڈالا۔ اگرچہ اس تحریر میں خامیاں بہت زیادہ تھیں لیکن صرف میری ہمت بندھانے کے لئے وہ ہر ممکن حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ اسی دوران تقریر کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے بے حد محنت اور جانفشانی سے میرے ساتھ لگے رہے۔ مجھے اس کا اعتراف ہے کہ میں اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ ان سے زیادہ فائدہ حاصل نہ کر سکا۔ یوں کم و بیش تین ماہ تک انہوں نے میری سر پرستی فرمائی اور پھر میری کوتاہیوں اور کاہلیوں کی بنائ پر میری طرف التفات کم ہو گیا۔ آج بھی سوچتا ہوں تو خود پر غصہ آتا ہے کہ تین ماہ کی تربیت کا یہ اثر کہ کبھی نہ لکھنے والے کو اچھی تحریر کی بناء پرہر طرف سے بے حد تعریف و توصیف مل رہی ہے۔ کاش میں اور ان سے مزید سیکھ پاتا، ان سے مزید فیض حاصل کر پاتا، انہی کی طرح بے ساختہ لکھ پاتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں ایک خاموش انسان کو زبان دی ہے۔ آپ کا شکریہ، بے حد شکریہ۔ آج جو میں چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھ پاتا ہوں صرف ان تین ماہ کی بدولت جو مجھے آپ نے دیے۔ زندگی بھر میں آپ کے اس احسان کو نہیں بھولوں گا۔ میں جب بھی کوئی تحریر لکھنے کے لئے پہلا لفظ لکھتا ہوں تو آپ یاد آ جاتے ہیں۔ اور دل آپ کے لئے ڈھیروں دعاؤں سے بھر جاتا ہے۔ شکریہ میرے ہاتھوں میں قلم تھمانے والے استاذ جی۔ آپ کا شکریہ. اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے۔

اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔